کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 23
حدیث وسنت مولانا عبدالصمد رفیقی
انبیاء ہی معیارِ حق کیوں ؟
’نبوت و رسالت‘ بڑا اہم، نازک اور عالی شان منصب ہے۔ اس منصب کے تین خاصے وحی ٴہدایت، معصومیت اور واجب الاتباع ہونے پر سطورِ ذیل میں ہم گزارشات پیش کرتے ہیں :
ان پہلووں کا آپس میں گہراربط ہے کیونکہ ایک نبی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ٴہدایت آتی ہے جس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ معصوم ہو، تاکہ اس کے ذریعے ایک غلط بات بندوں تک نہ پہنچنے پائے اور چونکہ وہ معصوم ہوتا ہے لہٰذا وہی معیارِ حق اور آخری واجب الاتباع ہوتا ہے، اس کی تصدیق وتائید اور غیر مشروط اطاعت و اتباع فرض کی حیثیت رکھتی ہے۔
عصر حاضر میں زوالِ اُمت کی ایک و جہ یہ بھی ہے کہ ہم نے نبوت و رسالت کے ان خاصوں کو افرادِ امت میں بانٹنا شروع کردیا ہے۔ جب کوئی اُمت اپنے نبی اور رسول کی اطاعت کرنا چھوڑ دے تو ذلت و رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ والعياذ بالله
’نبی‘ کامعنی و مفہوم
’نبی‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے ’خبر دینے والا۔‘ چونکہ ایک نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دین کی نوعیت رکھنے والی مختلف خبریں حاصل کرتا اور انہیں اس کے بندوں تک پہنچاتا ہے، اس لئے اسے نبی کہا جاتا ہے۔ ان خبروں کو ﴿أنْبَاءِ الْغَيبِ﴾ یعنی غیب کی خبریں کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر محض حس و عقل کے ذریعے ان خبروں کا علم ہوتا ہے، نہ ہوسکتا ہے۔ (دیکھئے :آلِ عمران:۴۴)
نبی کی بات کی صداقت ضروری ہے:کسی نبی کے ذریعے ان خبروں کا علم ہوجانے کے بعد ان کی صداقت پر ایمان لانا ضروری ہوجاتا ہے خواہ یہ خبریں ماضی کی ہوں یا حال و استقبال کی۔ انسان کی حس و عقل کے دائرے میں آئیں یا نہ آئیں ۔ چنانچہ ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے