کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 22
منتقل کرسکے اور اپنے گھر کی ’چراغِ خانہ‘ بن کر اس کی دیواروں کو علم کی روشنی سے منور کرسکے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ عورت کو گھریلو زندگی کو اپنی پہلی ترجیح سمجھنا چاہئے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ دنیا سے الگ تھلگ ہوکر زندگی بسر کرے ۔ آج کا معاشرہ بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ بڑے متمدن شہروں میں پرورش پانے والی عورتوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ کوہستانی قبائل کی عورت کی طرح زندگی بسر کریں ، ایک ناقابل عمل خواہش ہوگی۔ شہری زندگی میں ایسے مواقع بھی کم نہیں ہوتے جہاں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے پر مجبور نہیں ہوتیں ۔ گھریلو زندگی سے باہر اگر چہ عورتوں کے ہی مخصوص تعلیمی، تبلیغی، رفاہی اور سماجی حلقوں میں عورت بھرپور انداز میں شریک ہوسکتی ہے لیکن ان حلقوں میں شرکت کو اسے پیشہ ورانہ مشغولیت کی صورت ہرگز نہیں دینی چاہئے تاکہ خاندانی زندگی نظر انداز نہ ہو۔
’عورت اور ترقی‘ کے حوالہ سے ہمارے دانشوروں کو بہت بڑا چیلنج درپیش ہے کہ وہ ملکی ترقی میں جدید پاکستانی عورت کے کردار کے حوالہ سے ایسا فریم ورک تشکیل دیں جس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اعلیٰ انسانی قدروں کا رنگ بھرا جاسکے اور جو مرد اور عورت کے مخصوص دائرہ کار کے اس تصور کی روشنی میں پیش کیا جاسکے جس میں معاشرے کی مادّی واخلاقی دونوں طرح کی ترقی کے مقاصد کا حصول ممکن ہو۔ (محمد عطاء اللہ صدیقی)