کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 21
اسلامی اقدار اور ہمارے خاندانی اداروں اور روایات کی قیمت پراگر پاکستانی عورت ترقی کی منازل طے کرتی ہے تو یہ سراسر خسارہ کی بات ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کے فرائض مختلف قرار دیئے ہیں ۔ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہی ہے، البتہ بعض استثنائی صورتوں میں وہ بعض شرائط کی تکمیل کے ساتھ گھریلو زندگی کے دائرے کے باہر بھی فرائض انجام دے سکتی ہے۔ عورتوں کے حقوق کے نام پر کام کرنے والی تنظیمیں جو رول ماڈل (نمونہ) پیش کررہی ہیں ، وہ سراسر مغرب کی بھونڈی نقالی پر مبنی ہے جس کا نتیجہ معاشرتی اور خاندانی نظام کی تباہی کے علاوہ اور کچھ نہ ہوگا۔اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرے میں عورتوں کے حقوق کا بعض صورتوں میں خیال نہیں رکھا جاتا، مگر ان حقوق کی بازیابی کا وہ تصور اور حل بے حد خطرناک ہے جو این جی اوز پیش کررہی ہیں ۔ اسلام نے حیا اور عفت کو عورت کا زیور قرار دیا ہے، اس سے محروم ہوکر کوئی عورت اسلام کی نگاہ میں ’ترقی یافتہ‘ نہیں ہوسکتی۔ ہمیں ’ترقی‘ کے وہ معیارات پیش نظر رکھنے ہوں گے جو اسلام کے اخلاقی نصب العین پر پورے اُترتے ہوں ۔
امریکہ اور یورپ کی تاریخ گواہ ہے کہ مادّی ترقی کے حصول کے لئے عورتوں کامردوں کے ساتھ شانہ بشانہ شریک ہونا نہ صرف ناپسندیدہ بلکہ غیر ضروری بھی ہے۔ ملکی ترقی میں عورت کا شاندار کردار یہ ہے کہ وہ خاندانی زندگی کے نظام کو اس انداز میں سنبھال لے کہ اجتماعی طور پر معاشرہ استحکام حاصل کرے۔ خاندان کی اندرونی زندگی کو اُجاڑ کر د فتروں اور فیکٹریوں کے ماحول کو رونق بخشنے سے ترقی کا توازن قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ مغربی معاشرہ آج اسی عدمِ توازن کا شکار ہے۔ عورتیں تعلیم کی روشنی سے بھی اپنی روح کو منور کریں ، انہیں صحت کی سہولیات بھی ہر ممکن حد تک پہنچائی جائیں ۔ ان سے ہونے والی ناانصافی کے خاتمہ کی جدوجہد بھی ضرور کی جائے، مگر ان سب باتوں کے ساتھ ان کی پہلی ترجیح خاندانی زندگی کو استحکام بخشنا ہو۔ اگر وہ تعلیم حاصل کریں ، اس کامقصد کسی فیکٹری کے چیف ایگزیکٹو کی پرائیویٹ سیکرٹری بن کر عملاً اس کی تنخواہ دار داشتہ کا کردار ادا کرنا نہ ہو، نہ ہی وہ تعلیم کو محض ملازمت کے حصول کا ذریعہ سمجھیں ۔ تعلیم ایک مرد کے لئے معاش کا ذریعہ ہوسکتی ہے، مگر عورت کو اس لئے تعلیم یافتہ ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنے بچوں کی مناسب تعلیم و تربیت کا خیال رکھ سکے، ان میں علم کی روشنی