کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 20
پارلیمنٹرین کی کارکردگی صفر رہی ہے۔“ ان خواتین صحافیوں کی نگاہ میں خواتین پارلیمنٹرین کی طرف سے کسی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہ ہونے کی ایک و جہ یہ بھی ہے کہ اسمبلیوں کے اندر خاتون اراکین کو مرد اراکین اسمبلی کی طرف سے شدید مخالفت اور تنقید کا سامنا ہے۔ وہ خاتون اراکین کی حیثیت مقام اور مرتبے کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور کسی خاتون کی طرف سے کوئی تحریک پیش کرنے یا قانون کا بل پیش ہونے پر انہیں طنز و مزاح کا نشانہ بناتے ہیں ۔ (ایضاً) ہمارے خیال میں خواتین کی اسمبلیوں میں ’صنفی کارکردگی‘ نہ دکھانے کا سبب مردوں کی طرف سے ان کی مخالفت یا تنقید نہیں ہے۔ اگر پاکستان میں ۱۷ فیصد کی بجائے ۷۷ فیصد خواتین کو اسمبلیوں میں بٹھا دیا جائے تب بھی ان کی یہ نمائندگی پاکستانی خواتین کی اس ترقی کے ضامن نہیں بن سکتی جس کا یہ خواب دیکھتی ہیں ۔ بنیادی طور پر یہ تصور ہی غلط ہے کہ سیاست میں خواتین کی عملی شرکت سے ہی عورتیں ترقی کرسکتی ہیں ۔ یہ مغرب کا تصور ہے جو انہوں نے پسماندہ ممالک کیلئے پیش کیا ہے، ورنہ ان کے ہاں عورتوں کی پارلیمنٹ میں جب نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی، تب بھی وہاں کی عورت ترقی یافتہ تھی۔ امریکہ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی سمیت ایک بھی ترقی یافتہ ملک ایسا نہیں جہاں عورتوں کو ۳۳ فیصد نمائندگی حاصل ہو۔ پاکستان کی اسمبلیوں میں لبرل اور مغرب زدہ خواتین کے ساتھ متحدہ مجلس عمل کی خواتین اراکین ِ اسمبلی بھی موجود ہیں ۔ اسلامی مزاج رکھنے والی ان خواتین کی موجودگی کا اور کوئی عملی فائدہ ہو یا نہ ہو، یہ ضرور ہوا ہے کہ وہ مغرب زدہ خواتین کی طرف سے حدودآرڈیننس اور دیگر اسلامی قوانین کے خلاف کی جانے والی کوششوں کی بھرپور مزاحمت کررہی ہیں ۔ انہوں نے ان مٹھی بھر افرنگ زدہ عورتوں کے اس دعویٰ کو بھی باطل ثابت کیا ہے کہ وہ تمام پاکستانی خواتین کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ پاکستانی عورتوں کی ملکی ترقی میں شانہ بشانہ کردار کی بات ہو یا عورتوں کے حقوق کے تعین کامعاملہ ہو، پاکستانی مسلمانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ان جدید چیلنجوں کا حل مغربی معاشرے کی پیروی میں سمجھتی ہے یا ان مسائل کے حل کے لئے اُنہیں اسلام سے رہنمائی طلب کرنی چاہئے جو کہ آفاقی دین ہے اور جس کی تعلیمات ہر زمانے کے لئے ہیں ۔ اسلامی فریم ورک میں رہتے ہوئے مادّی ترقی کا حصول ہی ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔