کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 2
کتاب: محدث شمارہ 278 مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور ترجمہ: بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکرو نظر عورت اور ترقّی (جاپان، امریکہ اورپاکستان کے تناظر میں ) مغرب نے قوموں کی ترقی کے لئے جس سماجی فلسفہ کو آگے بڑھایا ہے ، اس کا ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ترقی کے عمل میں عورتوں کی شرکت کے بغیر خاطر خواہ نتائج کا حصول ممکن نہیں ہے۔ یہ فقرہ تو تقریباً ضرب ُالمثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے کہ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ کہ زندگی کے ہر شعبے میں عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے مواقع ملنے چاہئیں ۔ درحقیقت اس طرح کے نعرے تحریک آزادیٴ نسواں کے علمبرداروں کی طرف سے شروع میں اُنیسویں صدی کے آغاز میں لگائے گئے تھے جو رفتہ رفتہ بے حد مقبولیت اختیار کر گئے۔ اس زمانے میں عورتوں کا دائرہ کار گھر کی چار دیواری تک محدود تھا اور عورت کا اصلی مقام اس کا گھر ہی سمجھا جاتا تھا۔ اس زمانے کی خاندانی اقدار میں کنبے کی معاشی کفالت کی اصل ذمہ داری مرد پر تھی اورعورت کا بنیادی فریضہ گھریلو اُمور کی انجام دہی، بچوں کی نگہداشت اور اپنے خاوندوں کے آرام و سکون کا خیال اور فارغ وقت میں عمومی نوعیت کے کام کاج کرنے تک محدود تھا۔ تحریک ِآزادیٴ نسواں کے علمبرداروں نے اس صورتحال کو مرد کی ’حاکمیت‘اور عورت کی بدترین ’غلامی‘ سے تعبیر کیا اور عورتوں کے اس استحصال کے خاتمے کے لئے یہ حل پیش کیا کہ انہیں بھی گھر کے باہر کی زندگی کے عشرت انگیز دائروں میں شریک ہونے کا موقع ملنا چاہئے۔ معاشرت، تعلیم، سیاست، صنعت و حرفت، ملازمت، غرض ہر شعبے میں عورت کی شرکت کو مرد کی حاکمیت او ر غلامی سے چھٹکارا کے لئے ذریعہ سمجھا گیا۔ ۱۸۰۰ء کے لگ بھگ تحریک ِآزادی ٴ نسواں کا آغاز ہوا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ مغرب میں خاندانی ادارہ اور سماجی