کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 19
مطالبہ رہا ہے۔ خواتین کے حقوق کی علمبردار مغرب زدہ تنظیموں کا خیال ہے کہ اگر قانون ساز اداروں میں خواتین کو کم از کم ۳۳ فیصد نمائندگی مل جائے تووہ نہ صرف معاشرے میں سے صنفی امتیاز کا خاتمہ کرسکتی ہیں بلکہ خواتین کے حقوق کے منافی بنائے جانے والے قوانین کے خاتمے اور ایسے نئے قوانین کے اجرا کا راستہ بھی روک سکتی ہیں ۔
پاکستان میں ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں پاکستانی خواتین کو قانون ساز اداروں میں ابتدائی طور پر ۱۷ فیصد نمائندگی سے نوازا گیا۔ اس وقت سینٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ۲۳۳ عورتیں موجود ہیں ۔ ۷۴ قومی اسمبلی میں ، ۷۸ سینٹ میں ؛ پنجاب اسمبلی میں ۷۳، سندھ اسمبلی میں ۳۳، سرحد اسمبلی میں ۲۳جبکہ بلوچستان اسمبلی میں خواتین کی تعداد ۱۲ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کو اسمبلیوں میں اس قدر زیادہ نمائندگی دینے کے باوجود عام پاکستانی عورت کی حالت میں کوئی نمایاں تبدیلی واقع ہوئی ہے یا نہیں ۔ اس کے متعلق روزنامہ نوائے وقت میں رفیعہ پاشا اور بشریٰ محمد نے مشترکہ طورپر تحریر کردہ اپنے مضمون میں یوں تبصرہ کیا ہے :
”اتنی بڑی تعداد میں خواتین کے اسمبلیوں میں پہنچنے کے بعد توقع تھی کہ ملک کی نصف آبادی کی نمائندہ عام عورت کے حقوق کے تحفظ اور تشدد ناانصافی سے نجات دلانے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر یہ کام شروع کریں گی اور اسمبلیوں کے اندر پارٹی سیاست سے بالاتر ہوکر خواتین کے ایشو ز پر متحد ہوکر آواز بلند کریں گی لیکن خاتون اراکین ِاسمبلی کی ۱۵ماہ کی کارکردگی بیان بازی سے آگے نہیں بڑی اور عملی سطح پر کسی جماعت کی خواتین نے کوئی کارکردگی نہیں دکھائی۔
انتخابات سے قبل خواتین کی مختلف حقوق کی تنظیموں کی طرف سے منعقد کئے گئے پروگرام میں ہر جگہ تمام سیاسی جماعتوں کی خواتین نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ خواتین کے ایشوز پر دباوٴ کو خاطر میں نہیں لائیں گی۔ تاہم اسمبلیوں میں جانے کے بعد وہ اپنے اس عزم پر قائم نہیں رہ سکیں ۔ عام پاکستانی عورت جو ظلم و تشدد، استحصال وغربت، ناخواندگی، ناانصافی، فرسودہ روایات و اقدار اور امتیازی رویوں کا شکار ہے، ہر گزرے دن کے ساتھ اس کے دکھوں اور مصائب اور مشکلات جبکہ عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی تقدیر بدلنے کا نعرہ لگا کر اسمبلیوں میں نمائندگی حاصل کرنے والی خواتین کی تنخواہوں اور مراعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔“ (نوائے وقت، ۸مارچ ۲۰۰۴ء)
وہ مزید لکھتی ہیں :
”مجموعی طور پر عام عورت کو ریلیف دینے کے حوالے سے خواتین