کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 18
اقدار کو نشانہ بنایا گیا۔ خاندان جو پہلے عورت کے لئے جنت تھا، اب اسے عورت کے استحصال کا ذریعہ بنا کر پیش کیا گیا۔ گھریلو زندگی کے روایتی کاموں کو دقیانوسی ظاہر کیاگیا۔ عورت کو گھر سے نکل کر مرد کا مقابلہ کرنے کی ترغیب دی گئی۔ ایسے افلاطون میدان میں کود پڑے جنہوں نے جعلی تحقیقات سے یہ ’ثابت‘ کردکھایا کہ عورت ہر اعتبار سے مرد کے نہ صرف برابر ہے، بلکہ اس سے بہتر ہے۔ مرد کو ظالم اور بھیڑیا بنا کر پیش کیا گیا۔ نسوانیت اور حیا کو عورت کے زیور کی بجائے اس کی غلامی کی زنجیریں قرا ردیا گیا۔ مرد کی غلامی سے آزادی کے لئے عورتوں کی اقتصادی آزادی کا نعرہ لگایا گیا۔ بیٹی فرائیڈن کی کتاب"Feminine Mystique" (1963)نے عورتوں کی آزادی کے نئے تصور کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ عورتوں میں بغاوت اور تصادم کے نظریات رواج پانے لگے۔ گھروں کا سکون تلپٹ ہوگیا۔ ’عورتوں کے حقوق‘ کے نام پر فساد انگیزی پر مبنی لٹریچر سے بازار اَٹ گئے۔ ذرائع ابلاغ نے نئے راگ الاپنا شروع کردیئے۔ عورت کی آزادی کے علمبرداروں نے عورت کو گھر سے نکال کر منڈی کی چیز بنا دیا، اس کا استحصال کیا گیا مگر وہ اسے ’آزادی‘ سمجھتی رہی۔ آج امریکہ میں خاندانی ادارہ تباہی کے آخری کنارے پر ہے، ان کے دانشوروں کو سمجھ نہیں آرہی کہ اس ادارے کو تباہی سے کیونکر بچایا جائے۔ مگر یہی امریکی دانشور مسلمان ممالک کے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے لئے بے چین نظر آتے ہیں ۔ آج یہودی منصوبہ ساز مسلمان ممالک کی پسماندگی کی وجہ یہ قرار دے رہے ہیں کہ وہاں عورتوں کو ترقی کے عمل میں شریک نہیں کیاجارہا۔ این جی اوز کے ذریعے عورتوں کے حقوق کے نام پر اُنہیں خاندان کے پرسکون ماحول سے نکالنے، ان کے اندر ممتا کا احساس ختم کرنے اور انہیں ’مرد‘ بنانے کی سازشیں عروج پر ہیں ۔ ابھی چند دن پہلے روزنامہ ’جنگ‘ میں حسن نثار کا کالم نگاہ سے گذرا جس میں انہوں نے عرب معاشرے کی پسماندگی کے متعلق مغربی دانشوروں کی کانفرنس کی رپورٹ نقل کی جس میں بتایا گیا کہ عرب معاشرے اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتے جب تک وہاں کی عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام نہیں کرتیں ! پاکستانی عورت اور ترقی کا نصب ُالعین ’حکومت اور سیاسی عمل میں مساویانہ بنیادوں پر شرکت‘ تحریک حقوقِ نسواں کا شروع سے