کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 17
نام بہت معروف ہے۔ ۱۹۵۷ء میں اس نے اپنی کلاس فیلوز کے حوالہ سے ایک تحقیقی سروے کیا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا کررہی ہیں ۔ ہیولٹ نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے فرائیڈن کے سروے کے نتائج کو صفحہ۱۶۰پر یوں بیان کیاہے : ”۱۹۵۷ء میں بیٹی فرایڈن نے اپنی کتابThe Femine Mystique کے متعلق ریسرچ کرتے ہوئے سمتھ کالج میں ۱۹۴۲ء میں پڑھنے والی اپنی کلاس فیلوز کے متعلق سروے کیا۔ وہ چاہتی تھی کہ دیکھے اس کی ہم جماعت لڑکیاں اب کیاکررہی ہیں ۔اس نے دیکھا کہ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں مکمل طور پر مائیں اور بیویاں بننے میں غرق تھیں ۔ ۱۸۹ عورتوں میں سے جنہوں نے سوالنامے واپس کئے، ۱۷۹ شادی شدہ تھیں ، ۶ غیر شادی شدہ، ایک بیوہ اور تین طلاق یافتہ تھیں ۔ صرف ۱۱ کے بچے نہ تھے۔ اوسطاً ہر عورت کے تین بچے تھے، ۵۴ عورتوں کے ۴ یا اس سے زائد بچے تھے۔ سمتھ کالج کی ان گریجویٹ لڑکیوں کی اکثریت ’ہاوٴس وائف‘ (گھرہستن) تھی۔ حتیٰ کہ وہ عورتیں جن کے بچے سکول میں تھے، انہیں بھی باہر کے ماحول میں دلچسپی کم ہی تھی، انہوں نے ۱۹۵۰ء کی دہائی کی اس دانش کو مکمل طور پر اپنی سوچ کا حصہ بنا لیاتھا جس کی رو سے فیملی اور ملازمت کو ساتھ ساتھ چلانا ممکن نہیں ہے۔ ۱۸۹ میں سے صرف ۱۲/ ایسی تھیں جو ہمہ وقتی ملازمت کرتی تھیں اور صرف ایک ہی خاتون ایسی تھی جو اپنی ملازمت کو بطورِ پیشہ اپنانے میں بے حد سنجیدہ تھی۔ چند ایک ایسی بھی تھیں جو جزوقتی کام کرتی تھیں ۔“ ہیولٹ نے اپنے مضمون کا خاتمہ"The Saturday Evening Post"کے ۱۹۶۲ء میں شائع شدہ مضمون کی ان سطور پر کیا ہے: "To make a women completely content it takes a man, but the chief purpose of her life is motherhood, (p.163) ”ایک عورت کو مکمل طور پر سکون کے حصول کے لئے ایک مرد کی ضرورت ہے، مگر اس کی زندگی کا بنیادی مقصد ماں کا کردار (ممتا) ہے۔“ (صفحہ:۱۶۳) یہ بات ذہن نشین رہے کہ امریکی معاشرے کی یہ تصویر ’انسانی حقوق کے اعلامئے‘ (۱۹۴۸ء) کے بعد کی ہے، جس کی رو سے عورت اور مرد کو مساوی قرار دیا گیاتھا، ابھی مساوی حقوق کا ’فتنہ‘ برپا نہیں ہوا تھا۔ امریکہ میں ۱۹۶۰ء کی دہائی میں تحریک ِآزادئ نسواں کا دوسرا دور شروع ہوا۔ جنسی انقلاب کے سیلاب نے روایتی معاشرے کی شاندار اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیا۔ خاندانی