کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 15
”مختصراً یہ کہ ملازم پیشہ امریکی عورتیں (پروفیسر،وکلا، ڈاکٹر وغیرہ) کا تناسب ۱۹۵۰ء میں جنگ سے قبل کے سالوں کی نسبت انتہائی کم تھا اور امریکی عورتوں کا ملازمت کو بطورِ پیشہ اختیار کرنے کا رجحان اپنی یورپی بہنوں کی نسبت بہت ہی کم تھا۔ حتیٰ کہ امریکہ کے اعلیٰ درجہ کے کالجوں میں سب نوجوان طالبات کی آرزو یہ تھی کہ وہ گریجویشن کرتے ہی اعلیٰ تعلیمی اعزازات کی بجائے اپنی انگلیوں میں منگنی کی ہیرے کی انگوٹھی پہن سکیں ۔ امریکی عورتیں عام طور پر بچوں کی پیدائش سے پہلے جاب کرتی تھیں یاپھر اس وقت جب ان کے بچے ہائی سکول میں داخل ہوجاتے تھے، مگر وہ ملازمتوں کو شاذ و نادر ہی مستقل پیشہ بناتی تھیں ۔ امریکہ میں پچاس کی دہائی میں عورتیں اپنی بہترین توانائیاں اور خانہ داری اور بچوں کی دیکھ بھال میں خرچ کرتی تھیں ۔“ (صفحہ:۱۵۳)
۱۹۵۰ء کی دہائی میں امریکی معاشرہ نسوانی فطرت کی حقیقت کی بہت حد تک عکاسی کرتا تھا۔ اس معاشرے میں خاندان اپنی بچیوں کو تعلیم اس غرض سے دلاتے تھے تاکہ ان کے رشتے اچھے گھرانوں میں ہوجائیں نہ کہ انہیں اچھی ملازمت ملے۔ پاکستان میں بھی آج بہت سے خاندان ایسے ہیں کہ اگر ان کی بچیوں کے لئے اچھے رشتے میسر آجائیں تو وہ ان کی کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم اُدھوری چھوڑ کر شادی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ کیونکہ بڑی عمر کی لڑکیوں کے لئے مناسب رشتوں کا حصول ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ ہے۔ امریکی مصنفہ نے تعلیمی اسناد کے مقابلے میں منگنی کی ہیرے کی انگوٹھیوں کو ترجیح دینے کی بات کرکینوجوان طالبات کے رومانوی خوابوں کی دنیا میں اُتر کر جھانکا ہے۔ وہ کیونکہ خود ایک عورت ہیں ، اسی لئے خواتین کی رومانوی ترجیحات کو بخوبی سمجھتی ہیں ۔
ہیولٹ کہتی ہیں کہ جنگ ِعظیم کے بعد امریکی عورتیں بہترین تعلیم یافتہ تھیں اور کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کی عورت کے برابر تھیں ۔ تو پھر وہ پوچھتی ہیں کہ انہوں نے اپنی آزادانہ خواہشات کو ترک کرکے گھریلو زندگی کو کیوں اپنایا۔ اس کا جواب وہ خود دیتی ہیں :
”اُمور خانہ داری کی طرف یہ زبردست رجحان نتیجہ تھا حکومت کی ان پالیسیوں کا جو اس نے جنگ ِعظیم کے بعد اپنائیں ۔ اس میں اہم ترین پالیسی عورتوں کے روایتی کردار کی زبردست حوصلہ افزائی تھی۔ معاشی حکمت ِعملی وضع کرنے والوں کے پیش نظر یہ بات تھی کہ عورتوں کو ترغیب دی جائے کہ جنگ کے دنوں میں انہوں نے جو کام اختیار کئے تھے، اس کو چھوڑ کر