کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 14
التحصیل عورتوں کی شادیاں اکثر خوشحال مردوں سے ہوجاتی تھیں ۔ پچاس کے عشرے میں اگر خاندان اس بات کا متحمل ہوتا تو بیوی گھر ہی میں رہتی تھی۔“ (صفحہ:۱۵۳)
مندرجہ بالا انگریزی عبارت میں "Stayed at home" کے الفاظ کو قرآنِ مجید کے مقدس الفاظ ﴿وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ﴾ کی روشنی میں پڑھئے تو اسلام کی آفاقی صداقتوں کے تصور سے دل سرشار ہوجاتا ہے۔ ہیولٹ ۱۹۴۵ء اور اس کے بعد امریکی عورتوں کے حالات لکھتے ہوئے بیان کرتی ہیں :
”۱۹۴۵ء میں امریکی عورتیں جتنی بااختیار تھیں ، اس سے پہلے اتنی بااختیار کبھی نہ تھیں مگر جنگ ِعظیم دوم کے بعد آنے والے برسوں میں ایک عجیب بات سامنے آئی۔ امریکہ جو کہ آزاد اور طاقتور عورتوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، اس پر خانہ داری کے جذبات عجیب طور پر حملہ آور ہوگئے۔ پھر یوں ہواکہ لاکھوں عورتوں نے ایسا طرزِ زندگی اپنا لیا جو مکمل طور پر خاندان اور گھر پر مرکوز تھا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ تعلیم یافتہ عورتوں سے یہ توقع کی جاتی اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی کہ وہ اپنی زندگی کے بہترین (Prime) سال اور اپنی بہترین توانائیاں گھریلو کاموں اور ممتا کا کردار نبھانے پر صرف کریں ۔
ما بعد جنگ کے یہ سال عجیب رجحان کے حامل تھے۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی ایک عجب دور تھا، اس میں یوں ہوا کہ عورتوں نے پہلے سے نسبتاً چھوٹی عمر میں شادیاں کرنا اور بچے پیدا کرنا شروع کردیے، وہ اپنی تعلیم اور ملازمت کو بھی درمیان میں چھوڑ کر ایسا کرنے لگیں ۔ ۱۹۲۰ء اور ۱۹۳۰ء کی دہائیوں میں امریکی عورتوں کی شادی کرنے کی اوسط عمر ۲۳ تھی، جو ۱۹۵۰ء میں کم ہوکر ۲۰ رہ گئی۔ کسی بھی دوسرے ترقی یافتہ ملک میں شادی کرنے کی صنفی طور پر اوسط عمر اس قدر کم نہ تھی۔ شرح پیدائش میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا۔ ۱۹۵۰ء کے آخری سالوں میں امریکہ میں شرح پیدائش میں اضافہ یورپ کے مقابلے میں دگنا جبکہ افریقہ اور انڈیا کے برابرتھا۔ یہ دور جو ۱۹۶۰ء تک رہا، اس میں تیسرے بچے کی پیدائش کی شرح دوگنی ہوگئی، چوتھے بچے کی شرح میں تین گنا اضافہ ہوگیا۔ خاندانی زندگی سے محبت کی اس دہائی میں طلاق کی شرح کسی حد تک کم ہوگئی۔“ (صفحہ ۱۵۲،۱۵۳)
ہیولٹ کے درج ذیل الفاظ پڑھ کر تو شاید قارئین کو اعتبار نہ آئے۔ آخر یہ کیونکر ہوا کہ امریکی لڑکیوں نے تعلیمی اعزازات پرمنگنی کی انگوٹھیوں کو ترجیح دینا شروع کردی۔ ان کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے :