کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 13
راقم کی نگاہ سے متعدد کتابیں گزری ہیں ، مگر ان میں سے ایک کتاب تو ایسی ہے کہ جسے پہلی دفعہ پڑھ کر حیرت و استعجاب کے ساتھ عجیب روحانی نشاط بھی محسوس ہوا۔ اس کتاب کا عنوان ہے: "A Lesser life: The Myth of Women's Liberation" یعنی ”حیاتِ کمتر: عورتوں کی آزادی کا واہمہ“ مذکورہ کتاب کی مصنفہ ایک امریکی خاتون سلویا این ہیولٹ (Sylvia Ann Hewlett) ہیں جو برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی اور امریکہ کی ہاروڈ یونیورسٹی سے اعزاز کے ساتھ تعلیم مکمل کرچکی ہیں ، وہ اکنامکس میں پی ایچ ڈی ہیں اور امریکہ کی ’اکنامک پالیسی کونسل‘ کی ڈائریکٹر ہیں ۔ نیو یارک ٹائمز میں باقاعدگی سے لکھتی ہیں اور نصف درجن کتابوں کی مصنفہ ہیں ۔ میرے خیال میں وہ پاکستان کی انسانی حقوق کی علمبردار کسی بھی خاتون سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں ۔ عورتوں کی ملازمت کے حوالے سے پیش آمدہ مسائل ان کی دلچسپی کا خاص محور رہے ہیں وہ عورتوں کے حقوق کی علمبردار تو ہیں مگر ’تحریک ِآزادیٴ نسواں ‘ کے نظریات سے اختلاف رکھتی ہیں کیونکہ اس تحریک نے عورتوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان میں اضافہ کیا ہے۔ ہیولٹ نے اپنی اس کتاب کے ایک باب کا عنوان رکھا ہے : "Ultra۔domesticity: The return to Hearth and Home" یعنی ”بے تحاشا خانہ داری؛ گھر کی طرف مراجعت“ یہ تمام کا تمام باب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں اس سے چند ایک اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں ۔ ہیولٹ صا حبہ لکھتی ہیں : "In the United States the picture was dramatically different. In the 1950's Women with college degrees in the child۔bearing group had a lower rate of employment than any other group of Women, for the plain fact was Women with college degrees were ofien married to pros۔ perous men. And in America in the fifties, if the family could afford it, the wife stayed at home." ”ریاست ہائے متحدہ کا منظر ڈرامائی طور پر مختلف تھا۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی میں کالجوں سے فارغ التحصیل وہ نوجوان خواتین جو بچے پیدا کرنے کی عمر رکھتی تھیں ، ان میں ملازمت کی شرح عورتوں کے کسی بھی دوسرے گروہ سے کم تھی۔ اس کی سادہ سی و جہ یہ تھی کہ کالجوں سے فارغ