کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 12
کہ وہاں کی افرادی قوت میں نوجوان طبقہ کی تعداد میں کمی و اقع ہوگئی ہے۔ کام کے قابل افرادی قوت میں کمی کا سبب وہاں کی عورتوں میں بچے پیدا نہ کرنے کا رحجان ہے۔ پاکستان میں ۴۵ /فیصد آبادی پندرہ سال سے کم عمر افراد پر مبنی ہے جبکہ ترقی یافتہ ملکوں میں بوڑھوں کے تناسب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب اگر وہ نئی صنعتیں قائم کرنا چاہیں ، نئے منصوبہ جات لگانا چاہیں تو ان کے پاس مطلوبہ افرادی قوت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور دیگر ممالک ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو درآمد کرتے ہیں اگر ان ممالک سے ایشیائی اور افریقی محنت کشوں کو نکال دیا جائے تو یہ سخت معاشی بحران سے دو چار ہوجائیں گے۔ یہ ایک تناقض فکر ہے کہ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک میں آبادی کے اضافہ کے رحجان پر سخت تشویش میں مبتلا رہتے ہیں ، لیکن ان ترقی پذیر ممالک کی اضافی آبادی ہی ہے جو اُن کی معیشت کو سنبھالے ہوئے ہے۔
امریکہ میں عورت
عالمی ذرائع ابلاغ امریکی عورت کی جو تصویر آج کل پیش کررہے ہیں ، چند دہائیاں قبل امریکی سماج میں عورت کا یہ روپ ہر گزنہ تھا۔ جنگ ِعظیم دوم کے بعد امریکہ میں زبردست تحریک شروع ہوئی کہ عورتوں کو کارخانوں اور دفتروں کی ملازمت سے نکال کر واپس خانہ داری کے اُمور کی طرف راغب کیا جائے۔ امریکی دانشوروں نے عورت کے لئے ممتا کے کردار کو نہایت قابل احترام بناکر پیش کیا اور کہا کہ خانگی معاملات کو ان کی پہلی ترجیح ہونا چاہئے۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی میں امریکہ میں اُمورِ خانہ داری پر اس قدر زور دیا گیا کہ اسے بعد کے موٴرخ Ultra۔domesticityیعنی ’بے تحاشا خانہ داری‘ کا عشرہ کہہ کر پکارنے لگے، اور یہ بات بھی حیران کن ہے کہ یہی دور امریکی معاشرے کی خوشحالی اور معاشی ترقی کے اعتبار سے ’زرّیں دور‘ خیال کیا جاتا ہے۔
آج امریکہ کے سلیم الطبع دانشور جو مادر پدر آزاد نسل کے رویے سے بے حد پریشان ہیں ، وہ ۱۹۵۰ء کی دہائی کو امریکی معاشرے کے لئے ماڈل (نمونہ) قرار دیتے ہیں ۔ ان کا فلسفہ یہی ہے کہ گھر عورت کی جنت ہے، معاشرے کا اجتماعی سکون گھریلو ماحول کو پرسکون رکھے بغیر ممکن نہیں ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے عورت کا گھر پر رہنا ضروری ہے۔ اس موضوع پر