کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 11
راقم الحروف نے متعدد محکمہ جات میں خواتین کو کام کرتے دیکھا ہے، ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں ہے جو پیداواری صلاحیت کے اعتبار سے مرد ملازمین کے برابر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہو۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسی ہو جس کی خانگی زندگی بری طرح متاثر نہ ہوئی ہو۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کے نوجوان بے روزگاری کے بحران سے دو چار ہوں ، وہاں ایسے شعبہ جات میں عورتوں کی تعیناتی جہاں مرد بھی کام کرسکتے ہوں ، قوم کے معاشی مسائل میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ ایک لڑکے کا بے روز گار رہنا لڑکی کے بے روزگار رہنے سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ لڑکے پر مستقبل میں ایک پورے کنبہ کی کفالت کا بوجھ پڑنا ہوتا ہے۔ جبکہ خاندان کی معاشی کفالت عورت کی سرے سے ذمہ داری ہی نہیں ہے۔ عورتوں کی ملازمت کے متعلق ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ آج کل مہنگائی کے دور میں میاں بیوی دونوں کابرسر روزگار ہونا خاندان کے مجموعی وسائل میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ بعض استثنائی صورتوں میں تو شاید یہ بات درست ہو لیکن مجموعی اعتبار سے یہ مفروضہ مغالطہ آمیز ہے۔ ایک ملازم خاتون اپنی تنخواہ سے کہیں زیادہ یا کم از کم اِس کے قریب قریب اپنے لباس کی تیاری، میک اَپ، ٹرانسپورٹ، اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے آیا کے بندوبست، گھر میں نوکرانی کی تنخواہ وغیرہ پر خرچ کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ ایک سترہ گریڈ کے افسر کی ماہانہ تنخواہ چھہزار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ جبکہ مذکورہ اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہوجاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ گھر میں عدمِ سکون، بے برکتی اور بدنظمی کا سامنا الگ کرنا پڑتا ہے۔ ایک ملازم پیشہ عورت خود بھی پریشان ہوتی ہے اور اپنے خاوند اور بچوں کو بھی پریشان کرتی ہے۔ ایسی صورت میں وہ قومی ترقی میں کوئی مثبت کردار کیسے اَدا کرسکتی ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا کہ ملازم عورتیں اپنے خاوندوں کا بہت سارا وقت برباد کر دیتی ہیں ۔ وہ دعویٰ تو ’برابری‘ کا کریں گی، لیکن انہیں دفتر لے جانے اور لے آنے کی ذمہ داری ان کے خاوند ہی کو نبھانی پڑے گی۔ گویا اُن کی ملازمت کی وجہ سے اُن کے خاوند بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں معاشی ترقی کی رفتار میں ٹھہراؤ یا کمی آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے