کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 10
خواہ اضافہ کر دیا جائے تو یہ معاملہ پہلے سے کہیں بہتر ہوگا۔
پاکستان اور ترقی
پاکستان میں مغرب کے اتباع اور مساوات ِمرد و زن کی غلط تعبیر کے نتیجے میں قومی دولت کا کثیر سرمایہ غیر پیداواری مدات میں خرچ ہو رہا ہے۔ چند سال پہلے لاہور ہائیکورٹ نے میڈیکل کالجوں میں لڑکیوں کے لئے مخصوص کوٹہ کو مساوات کے اُصول کے منافی قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا حکم صادر کیا۔ جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ بعض کالجوں میں طلبہ کی نسبت طالبات کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے مثلاً علامہ اقبال میڈیکل کالج میں ۔ باوجودیکہ طالبات کے لئے فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی سہولت الگ سے موجود ہے، ہائیکورٹ کو طالبات کے لئے الگ کالج کی سہولت میں تو ’عدمِ مساوات‘ کی بات دکھائی نہ دی البتہ دیگر مخلوط کالجوں میں ان کی عدمِ مساوات کا خاص خیال رکھا گیا۔ پاکستان کے معروضی حالات میں طالبات کی نسبت میڈیکل کے طلبہ کی زیادہ ضرورت ہے۔ میڈیکل کی طالبات کی اکثریت فارغ التحصیل ہونے کے بعد ملازمت نہیں کرتی۔ اگر کوئی خاتون ڈاکٹر ملازمت اختیار بھی کر لے تو لاہور، ملتان اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں سے باہر تعیناتی کے لئے بھی تیار نہیں ہوتیں ۔ پنجاب میں شاید ہی کوئی بنیادی ہیلتھ مرکز ہو جہاں کوئی لیڈی ڈاکٹر کام کر رہی ہو۔ لاہور میں میو ہسپتال، جناح ہسپتال اور سروسز ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹرز کی بھرمار ہے۔ جہاں ایک کی ضرورت ہے وہاں کم از کم چار کام کر رہی ہیں ۔ گویا چار کی تنخواہ لے رہی ہیں اور کام ایک کے برابر کر رہی ہیں ۔ ان کی اکثریت چونکہ غیر پیداواری ہے، اسی لئے وہ قومی خزانہ پر بوجھ ہیں ۔ ہماری اعلیٰ عدالتوں کو میڈیکل کالج میں لڑکیوں کے لئے ’اوپن میرٹ‘ کا تصور قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمتوں میں ان کی تعیناتی کے متعلق مساوات کو بھی یقینی بنایا چاہئے۔بڑے شہروں سے باہر ملازمت نہ کرنے کے لئے وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اکیلی عورت ناسازگار ماحول میں بغیر کسی محرم مرد کے کس طرح کام کرے گی؟ یہ گویا بالواسطہ اعتراف ہے اس بات کا کہ عورتیں وہ سب کام نہیں کرسکتیں جو مرد سرانجام دے سکتے ہیں ۔ مگر کھلے لفظوں میں کوئی بھی خاتون یہ اعتراف کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کیونکہ اسے وہ اپنی شکست سمجھتی ہیں ۔