کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 99
ڈال دی جائے۔ گو یہ محاذ بڑا مستحکم تھا، لیکن بشری تقاضوں کے تحت بعض اوقات غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور وقتی طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اُمہات الموٴمنین کی دل آزاری کا موجب بنیں ۔ چنانچہ واقعاتِ تحریم، اِیلاء، تخییر اور واقعہ اِفک (ان کا ذکر قرآن حکیم میں موجود ہے) وہ واقعات ہیں جو وقتی ناخوشگواری کا باعث بنے، لیکن ذات آفرید گار کے کرم اور ہادئ جہاں کی فراست سے ذرّیت ِابلیس کوناکامی ہوئی۔ ………………………… آج کی عورت کے لئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ذاتِ اقدس میں رہنمائی کا سامان موجود ہے، کیونکہ آج کا دور اس بات کا متقاضی ہے کہ معاشرتی، اخلاقی گراوٹ کا سدباب اُسوۂ حسنہ سے کیا جائے اور معاشرتی ترقی کی راہ میں پہلی اکائی گھر ہے اور یہ عورت ہی ہے جو گھر کو جنت بنا سکتی ہے یا جہنم!! تو کیوں نہ ہم سب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نقش قدم پر چلیں ، کیونکہ یہ وہ مینارہٴ نور ہیں جن کی شمع زندگی سے نکلنے والی کرنیں زندگی کی ہر راہ کو منور کرتی ہیں ۔ میں اس کی چند مثالیں یوں پیش کروں گی : (1) دنیا دار ہوجانے کے بعد عورت کے اخلاق میں سب سے پہلے جس بات پر نظر پڑتی ہے وہ شوہر کی اطاعت اور ا سکی رضا جوئی ہے۔ اور یہ صفت آپ رضی اللہ عنہ میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ (2) عورتیں بالعموم اِسراف کی عادی ہوتی ہیں ۔ مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات میں قناعت کا وصف خصوصیت سے نمایاں نظر آتا ہے۔ لذائذ ِدنیوی اور مال و منال کی طرف رخ بھی نہ کرتی تھیں ۔ (3) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود پسندی سے متنفر تھیں ۔ اس لئے تعریف کرنے والوں سے ملنے میں انہیں تامل ہوتا تھا۔ (4) آپ رضی اللہ عنہ کو غیبت اور بدگوئی سے سخت اجتناب تھا۔ ان سے مروی کسی حدیث میں کسی شخص کی توہین یا بدگوئی کا ایک لفظ بھی نہیں اور وسعت ِقلب کا یہ عالم تھا کہ اپنی سوکنوں کی