کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 98
(2)بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ ان کی خدمت میں حاضر ہوکر مسائل پوچھا کرتے تھے۔
(3)مکشرین روایات میں آپ رضی اللہ عنہا کا نمبر چھٹا ہے۔
(4) آپ کو خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جیسے مفسرین اور محدثین کی ہم سری حاصل تھی۔
(5)حضرت ابوموسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ ”ہم لوگوں کو کوئی ایسی مشکل پیش نہ آتی جس کا علم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس نہ ہوتا۔“
(6) آپ کے شاگردوں کی تعداد 200 کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔
(7)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو حدیث روایت کرتیں ، اس کا پس منظر اور اسباب و علل بھی بیان کرتیں تاکہ اسے باور کرانے کے لئے دور ازکار تاویلوں کی ضرورت پیش نہ آئے۔ ہمیشہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کی حقیقی روح تک پہنچنے کی کوشش کرتیں ۔
(8)بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جمع قرآن کے سلسلہ میں بھی اُمّ الموٴمنین کو فوقیت حاصل ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ تہجد میں آقائے نامدار کی اِقتدا کرتی تھیں ۔ اس نماز میں طویل سورتوں کی تلاوت ہوتی تھی۔
نیز قرآن کی بیشتر سورتوں کا نزول بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ ٴ انور میں ہوا۔ اس لحاظ سے آپ رضی اللہ عنہ قرآن کی اوّلین سامعہ اور اُسوہٴ حسنہ کی اوّلین شاہد تھیں ۔ وصالِ رسالت ِمآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے کلام اللہ کا ایک نسخہ لکھوا کر اپنے پاس محفوظ کرلیا تھا جسے مصحف کا نام دیا گیا اس مصحف نے اکثر مستند متن کا کام دیا ہے۔
خاص واقعات
دشمن اگر صاحب ِکردار ہو تو اس کی غارت گری میں بھی ایک متانت اور وقار موجود ہوتا ہے، لیکن عدوّ اگرذ ہنی پستی کا شکار ہو تو اس کی تاخت کا میدان اخلاقی گراوٹ تک وسیع ہوجاتا ہے۔ منافقین ِمدینہ نے بھی شرارت کی انتہا کرتے ہوئے حرمِ نبوی کو اپنی فتنہ انگیزیوں کا ہدف بنایا۔ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عائلی زندگی میں بے چینی پیدا کرکے اشاعت ِدین کی راہ میں رکاوٹ