کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 96
ہے؟“ جواب میں سرورِ کائنات کا پیغام تھا کہ ” ابوبکر میرے دینی بھائی ہیں اور ایسے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز ہے۔“ (بخاری؛5081) (2)ایک بارماہ شوال میں عرب میں طاعون کی وبا پھیل گئی جس نے ہزاروں گھرانے تباہ کردیے۔ اس وقت سے اہل عرب کے یہاں شوال کے مہینے کو منحوس سمجھا جانے لگا اور وہ اس مہینے میں خوشی کی تقریب کرنے سے احتراز کرنے لگے۔ مگر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شوال میں رخصتی اور نکاح نے لوگوں کے دلوں سے ماہ شوال کی نحوست کا وہم دور کردیا۔ وفات 17/ رمضان المبارک 58ہ کو 67سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں رحلت فرمائی۔ رات کے وقت بقیع الغرقد میں دفن ہوئیں ۔ نمازِ جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ عبداللہ بن زبیر، قاسم بن محمد اور عبداللہ بن عبدالرحمن نے قبر میں اُتارا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے وابستگی جناب صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بے حد محبوب تھیں ، فرمایا کرتے تھے: (1)”اے باری تعالیٰ میں سب بیویوں سے برابر کا سلوک کرتا ہوں مگر دل میرے بس میں نہیں کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو زیادہ محبوب رکھتا ہے۔ یا اللہ! اسے معاف فرما۔“ (2) آپ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ آخری وقت میں نبی کریم کے لیے میں نے مسواک اپنے دانتوں سے چبا کر دی۔ اللہ نے میرا اور نبی کا لعابِ مبارک اِکٹھا کر دیا۔ (بخاری؛4451) (3)ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار دورانِ سفر گم ہوگیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلاش میں چند صحابہ کو بھیجا، راستے میں نماز کا وقت آگیا اور لوگوں نے وضو کے بغیر نماز پڑھی کیونکہ پانی کا دور، دور تک نشان نہ تھا۔ اس پر آیت تیمم نازل ہوئی۔ حضرت اُسید رضی اللہ عنہا نے اسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہت بڑی فضیلت جانا اور ان سے مخاطب ہوکر کہا : ”اُمّ الموٴمنین! اللہ آپ کو جزائے خیر دے، آپ کو کوئی ایسا حادثہ پیش نہیں آیا جس سے اللہ نے آپکو نکلنے کا راستہ نہیں بتایا اور وہ مسلمانوں کیلئے ایک برکت بن گیا۔“ (بخاری؛3773)