کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 95
”جب میں نے اپنے والدین کو پہچانا، انہیں مسلمان پایا۔“ (بخاری؛3905) عہد ِطفولیت آپ رضی اللہ عنہ کا بچپن صدیق اکبر جیسے جلیل القدر باپ کے زیر سایہ بسر ہوا۔ وہ بچپن سے ہی بے حد ذہین اور ہوش مند تھیں ۔ بچپن کی جتنی باتیں انہیں یاد تھیں ، کہا جاتاہے کہ کسی دوسرے صحابی یا صحابیہ کی یادداشت اتنی اچھی نہ تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو ان رضی اللہ عنہ کی عمر کا آٹھواں یا نواں سال تھا، لیکن ہجرت کے واقعات کاتسلسل جتنا عائشہ رضی اللہ عنہا کے حافظہ کا ممنون ہے، کسی دوسرے صحابی کا نہیں ۔ امام بخاری نے تفسیر سورۃ القمر میں لکھا ہے کہ آیت ِمبارکہ ﴿بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ﴾مکہ میں نازل ہوئی تو اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کھیل رہی تھیں اور دیکھئے کہ یہ واقعہ بھی امام بخاری نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی زبانی نقل کیا ہے۔ نکاح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق جیسے جلیل القدر صحابی اور اُمّ رومان رضی اللہ عنہا جیسے مقبولِ بارگاہ ماں باپ کی پاک و طاہر بیٹی کا نصیب صاحب ِلولاک کا نورکدہ ہی ہوسکتا تھا۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ اوّل سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات 10 نبوی میں ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم افسردہ خاطر دیکھے گئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کو عقد ِثانی کا مشورہ دیا ۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا اور خولہ کے ذریعے نکاح کی با ت طے ہوئی۔ چنانچہ 6 سال کی عمر میں ہجرت سے 3 سال قبل ماہ شوال میں آپ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں ۔ نکاح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خود پڑھایا۔ 500 درہم حق مہر مقرر ہوا اور 9 برس کی عمر میں اور بعض روایات میں 12 برس کی عمر میں آپ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہوئی۔ یہ نکاح نہ صرف اسلام کی حقیقی سادگی کی تصویر تھا بلکہ اس سے دور ِ جاہلیت کی بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوا ، مثلاً: (1)حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بھائی تھے۔ جب حضرت خولہ رضی اللہ عنہا کے ذریعے نکاح کی بات چلی تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ”کیا بھائی کی بیٹی سے نکاح ہوسکتا