کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 92
٭ شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی:
”میت کے لیے قربانی کی دو قسمیں ہیں :
(1)(پہلی )یہ کہ شرعی قربانی ہو اور وہ یہ ہے کہ جو عیدالاضحی میں اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کی جاتی ہے اور اس کا ثواب میت کے لیے مقرر کر دیا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن اس سے بھی افضل یہ ہے کہ انسان اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرے اور اس کے ساتھ زندہ اور فوت شدہ(افراد) کی بھی نیت کر لے تو تبعاً میت بھی اس میں شامل ہو جائے گی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اپنے گھر کے فوت شدگان میں سے کسی کی طرف سے قربانی نہیں کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین بیٹیاں :زینب،امّ کلثوم اور رقیہ رضی اللہ عنہن فوت ہوئیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے قربانی نہیں کی اور اسی طرح خدیجہ رضی اللہ عنہا جو آپ کو بیویوں میں سب سے زیادہ محبوب تھیں ،آپ نے ان کے لیے بھی قربانی نہیں کی، اور اسی طرح آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جو جنگ ِاُحد میں شہید کر دیے گئے، آپ نے ان کی طرف سے بھی قربانی نہیں کی ۔ہاں ! لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں (مجموعی طور پر ،زندہ یا فوت شدہ )کی طرف سے قربانی کی ہے۔“
(2) ”غیرعیدا لاضحی میں میت کی طرف سے جانور ذبح کرنا جیسا کہ بعض جاہل لوگ ایسا کرتے ہیں کہ میت کے لیے اس کی وفات کے ساتویں روز جانور ذبح کیا جاتا ہے یا اس کی وفات کے چالیسویں روز، یا اس کی وفات کے تیسرے روز، یہ بدعت ہے اور جائز نہیں کیونکہ یہ ایسے بے فائدہ کام میں مال کا ضیاع ہے جس میں نہ تو دینی فائدہ ہے اور نہ دنیاوی، بلکہ دینی نقصان میں (مال کا ضیاع ہے) اور تمام بدعتیں گمراہی ہیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بدعت گمراہی ہے۔“ (واللہ الموفق)(فتاویٰ منار الاسلام :ج2/ص411)
جہاں تک صرف میت کی طرف سے قربانی کرنے کا تعلق ہے توبقول شیخ ابن عثیمین اس سے اجتناب ہی بہتر ہے، جبکہ دیگر اہل علم مثلاً علامہ ابن تیمیہ، امام بغوی وغیرہ اس کے جواز کے بھی قائل ہیں ۔( فتاویٰ: 26/306 اور شرح السنہ: 4/258)
کیا مقروض شخص قربانی کرسکتا ہے؟
شریعت سے کوئی ایسی دلیل نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ مقروض شخص قربانی نہیں کرسکتا، ہاں اتنا ضرور ہے کہ قرض لینے کے بعد اسے جلد از جلد اتارنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اگر مقروض شخص قربانی کرے گا تو اس کی قربانی قبول نہیں