کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 91
زمانے میں آدمی اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربان کرتا تھا، وھ (اسے) کھاتے اور کھلاتے تھے۔“
(ترمذی؛1505،کتاب الاضاحی)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی زندہ افراد یعنی گھروالے یا دوست احباب وغیرھ کی طرف سے قربانی کرنا چاہے توجائز ہے۔
میت کی طرف سے قربانی
اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ قربانی تو زندہ افراد کی طرف سے کی جائے لیکن اس میں فوت شدگان کو بھی شریک کرلیا جائے، یہ جائز ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور ذبح کرتے وقت فرمایا: ” اللہ کے نام کے ساتھ اے اللہ! محمد، آلِ محمد اور اُمت ِمحمد کی طرف سے (اسے) قبول فرما۔“ (مسلم ؛5091،کتاب الاضاحی)
ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ نے جانور قربان کرتے وقت فرمایا:
(بسم الله والله أكبر عن محمد! وأمة من شهد الله بالتوحيد وشهد لي بالبلاغ)
”اللہ کے نام کے ساتھ اور اللھ سب سے بڑا ہے، (یہ جانور) محمد کی طرف سے اور اس کی اُمت میں سے جس نے اللہ تعالیٰ کی توحید کی گواہی دی اور میرے لیے پیغام پہنچانے کی گواہی دی، کی طرف سے (قبول فرما)۔“ (ارواء الغلیل:ج4/ص251)
ان احادیث سے معلوم ہو اکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی میں اپنے گھروالوں کے ساتھ پوری اُمت کو بھی شریک کیا اور یقینا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے کئی افراد فوت ہوچکے تھے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اپنی قربانی میں فوت شدگان کو بھی شریک کیا جاسکتا ہے۔
٭ شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی: شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی کی طرف اشارہ کیا ہے :
”قربانی زندہ اور مردہ کی طرف سے مشروع ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ایک بکری اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربان کرتے تھے، حالانکہ اُن میں بعض فوت ہوچکے تھے جیسے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہا اور اس لیے بھی مشروع ہے کہ یہ صدقہ اور قربت ہے پس یہ بقیہ صدقات کے مشابہ ہوگئی اور یہ زندہ افراد کی طرف سے زیادہ موٴکد ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی وجہ سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس قول کی وجہ سے کہ ”جب ذوالحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے اور تم میں سے کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں اور اپنے ناخنوں سے کچھ نہ کاٹے۔“ اسے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے تخریج کیا ہے۔“ (فتاویٰ اسلامیہ :ج2/ص321)