کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 90
نہ تو اس کا گوشت اور نہ ہی اس کا چمڑا خواہ قربانی واجب ہو یا نفلی ہو کیونکہ وہ ذبح کے ساتھ متعین ہوچکی ہے۔“ (المغنی:ج13/ص382) ٭ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی: ”وہ اسے (یعنی قربانی کے جانور کو) فروخت نہیں کرسکتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی چیز (گوشت یا کھال وغیرہ) فروخت کرسکتا ہے اور (امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ) مزید فرماتے ہیں کہ’سبحان اللہ‘ وہ اسے کیسے فروخت کرسکتا ہے جبکہ وہ اسے اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے مقرر کر چکا ہے۔“ (ايضاً) کیا قربانی کا گوشت یا کھال قصائی کو بطور اُجرت دی جاسکتی ہے؟ ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ ”حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں ان قربانی کے جانوروں کے جھول اور ان کے چمڑے صدقہ کردوں جن کی قربانی میں نے کردی تھی۔“ (بخاری :1707،کتاب الحج ، باب الجلال للبدن) اور صحیح مسلم میں ہے کہ”حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کی نگرانی کروں اور میں ان قربانیوں کا گوشت اور ان کے چمڑے اور ان کی جلیں صدقہ کر دوں اور ان سے (کچھ بھی) قصائی کو نہ دوں ۔ “ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ”ہم اسے (قصائی کو) اپنے پاس سے (معاوضہ) دیا کرتے تھے۔“ (مسلم :3180،کتاب الحج ) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانوروں کی ہر چیز حتی کہ جل تک بھی صدقہ کر دی جائے اور قصائی کو ان میں سے اُجرت میں کچھ نہ دیا جائے بلکہ اُجرت علیحدہ دینی چاہیے۔ دوسروں كى طرف سے قربانى زندہ افراد کی طر ف سے قربانی اپنے علاوہ دیگر زندہ افراد کی طرف سے قربانی کرنا بالا تفاق جائز و مباح ہے اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے کہ ”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔“ (بخاری؛5548)ایک اور حدیث میں ہے کہ ”عطاء بن یسار رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانی کیسے ہوتی تھی تو انہوں نے کہا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے