کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 86
قربانی کتنے دنوں تک کی جاسکتی ہے؟ عید الاضحی اور اس کے بعد تین دن یعنی تیرہ 13/ذو الحجہ کی شام تک قربانی کی جاسکتی ہے کیونکہ عید الاضحی کے بعد 11،12،13ذو الحجہ کے دنوں کو ایام تشریق کہتے ہیں ۔(تفسیر احسن البیان :ص82 ،نیل الاوطار :ج3/ص490) اور تمام ایام تشریق کو ذبح کے دن قرار دیا گیا ہے اس کی دلیل مندجہ ذیل حدیث ہے: (عن جبير ين مطعم رضی اللہ عنہ عن النبى صلی اللہ علیہ وسلم :كل أيام التشريق ذبح) ”تمام ایام تشریق ذبح کے دن ہیں ۔“ (احمد :ج4/ص82، صحیح ابن حبان :3842، صحیح الجامع الصغیر :4537) اگر چہ اس حدیث کے منقطع ہونے کا دعوی کیا گیا ہے لیکن امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابن حبان میں اسے موصول بیان کیا ہے او رامام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو مرفوع بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ احمد وغیرہ کے رجال ثقہ ہیں ۔ (بلوغ الامانی للبنا :ج13/ص94،95) ٭ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی: انہوں نے اس ضمن میں پانچ مختلف مذاہب ذکر کرنے کے بعد اس مذہب کو ترجیح دی ہے کہ (أيام التشريق كلها أيام ذبح وهى يوم النحر وثلاثة أيام بعده) ”سارے ایام تشریق ذبح کے دن ہیں او روہ دن یہ ہیں : یوم النحراور اس کے بعد تین دن۔“ )نیل الاوطار :ج5/ص125)حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، عطا، حسن بصری، عمر بن عبدالعزیز، سلیمان بن موسی الاسدی، مکحول،شافعی، اورداود ظاہری رحمہم اللہ سے بھی یہی قول منقول ہے۔ (نیل الاوطار:ج3/ص490،بیہقی :ج5/ص296،297) البتہ بعض فقہاء نے یوم النحر کے بعد مزید صرف دو دنوں تک قربانی کی اجازت دی ہے ان کی دلیل حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اورحضرت انس رضی اللہ عنہ کا یہ اثر ہے:(الأضحى يومان بعد يوم الأضحى)”قربانی یوم الاضحی کے بعد دو دن ہے۔“(موٴطا:2/487،بیہقی:ج9/ ص297، شرح مسلم للنووی :ج7/ص128)لیکن یہ بات درست نہیں کیونکہ پہلی حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی حدیث مرفوع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ کی روایت محض ان کا اپنا قول ہی ہے اس لیے پہلی حدیث کو ترجیح دی جائے گی نیز جس روایت میں ایک دن کم کا ذکر ہے، اس میں زیادتی کی نفی بھی نہیں ہے۔