کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 85
(إذا رأيتم هلال ذي الحجة وأراد أحدكم أن يضحي فليمسك عن شعره وأظفاره) (مسلم :3655) ”جب تم ذو الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے رک جائے۔“ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں کہ ”حضرت سعید بن مسیب، امام ربیعہ، امام احمد، امام اسحاق، امام داوٴد اور بعض اصحابِ شافعی رحمہم اللھ نے کہا ہے کہ ایسے شخص پر اپنے بال اور ناخن میں سے کچھ بھی کاٹنا اس وقت تک حرام ہے جب تک کہ وہ شخص قربانی کے اوقات(ایام تشریق) میں قربانی نہ کرلے۔“ (شرح مسلم :7/154، نیز دیکھئے المغنی:13/362) جو شخص قربانی کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اس کے لیے بال ،ناخن کاٹنے کی ممانعت نہیں ،تا ہم اگر وہ بھی ان دنوں بال اور ناخن نہ کاٹے تو اسے بھی قربانی کا ثواب مل جاتا ہے ۔دیکھئے: حدیث عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ زیر عنوان ”جو قربانی کی طاقت نہ رکھے…“ (ابوداود؛ 2789) جس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے کیا وہ بھی بال اور ناخن نہ کاٹے ؟ شیخ ابن جبرین فرماتے ہیں کہ اور صحیح حدیث میں آیاہے کہ ”جب عشرہ ذو الحجہ شروع ہو جائے اورتم میں سے کوئی شخص قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو اپنے بال اور اپنے چمڑے (یعنی جسم ) سے کچھ نہ کاٹے۔ “(اس حدیث میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کاذکر نہیں کیا جس کی طرف سے کوئی اور قربانی کر رہا ہولیکن بعض علما نے ایسے شخص کا(بال وغیرہ ) کاٹنا بھی ناپسند کیا ہے جس کی طرف سے کوئی اور قربانی کر رہاہواس کے ساتھ کہ ان میں سے جس نے کسی چیز کو کاٹانہ تو اس پر کوئی فدیہ ہے،نہ اس کی قربانی باطل ہوگی اور نہ ہی اسے قربانی کرنے سے پیچھے ہٹنا چاہیے وہ ان شاء اللہ اس کی طرف سے قبول ہو جائے گی۔“)فتاویٰ اسلامیہ :ج2/ص318) قربانی کا وقت قربانی کا وقت نماز عید کے بعد شروع ہوتا ہے اور جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کی خواہ وہ کسی بھی علاقے میں ہو اس کی قربانی قبول نہیں ہوگی بلکہ اسے نماز عید کے بعد قربانی کے لیے دوسرا جانور ذبح کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ”جو شخص نماز عید سے پہلے قربانی کرلیتا ہے وہ صرف اپنے کھانے کے لیے جانور ذبح کرتا ہے اور جو نمازِ عید کے بعد قربانی کرے اس کی قربانی پوری ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں کی سنت کو پالیتا ہے۔“ (بخاری:5556 نیز 5549،5560،5561،5562)