کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 84
سائبہ وغیرہ جو جانور مذہبی نیاز نذر کے طور پر چھوڑ دیتے ان پر سوار ہونا معیوب جانا کرتے تھے۔ قربانی کے جانوروں کے متعلق بھی جو کعبہ میں لے جائی جائیں ان کا ایسا ہی تصور تھا۔ اسلام نے اس غلط تصور کو ختم کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بالاصرار حکم دیا کہ اس پر سواری کرو تا کہ راستہ کی تھکن سے بچ سکو۔ قربانی کے جانور ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے معطل کر کے چھوڑ دیا جائے۔ اسلام اسی لیے دین فطرت ہے کہ اس نے قدم قدم پر انسانی ضروریات کو ملحوظ نظر رکھا ہے اور ہر جگہ عین ضروریات انسانی کے تحت احکامات صادر کیے ہیں ۔ (شرح بخاری:3/42) مزید اسی حدیث کے متعلق امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں کہ ”حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح حدیث ہے اور بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے قربانی کے اونٹ پر سواری کی رخصت دی ہے جبکہ وہ شخص اس کی سواری کا محتاج ہواور یہی قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور اسحق رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے اور ان میں سے بعض نے کہا کہ جب تک وہ شخص اسکی طرف مجبور نہ ہو جائے سواری نہ کرے۔“ (ترمذی: کتاب الحج، باب ماجآء فى ركوب البدنة) کیا قربانی کا جانور فروخت کیا جاسکتا ہے؟ اگر انسان قربانی کی نیت سے کوئی جانور خریدے تو پھر اسے فروخت کرنا درست نہیں کیونکہ اب وہ جانور اللہ تعالیٰ کا ہو چکا ہے اب اسے صرف اللہ کے لیے قربان کرنا ہی ضروری ہے جیسے وقف شدہ مال کو نہ فروخت کرنا جائز ہے، نہ ہبہ کرنا جائز ہے اور نہ ہی وراثت میں تقسیم کرنا جائزہے بلکہ اسے اللہ ہی کے لیے صرف کرنا ضروری ہے۔ (مسلم :4224) ہاں اگر اسے فروخت کرنے سے مقصود اسے تبدیل کرنا ہے تو درست ہے مثلا اگر کوئی شخص بکری خرید لایا ہے لیکن پھر وہ اسے فروخت کر کے گائے خریدنا چاہتا ہے تو یہ درست ہے کیونکہ یہ افضل قربانی کی طرف پیشرفت ہے۔ اور اس صورت میں بھی فروخت کرنا جائز ہے کہ اگر جانور خریدنے کے بعدعلم ہو کہ یہ بیمار ہے یا اس میں کوئی ایسا نقص ہے جس کی وجہ سے یہ قربانی کے قابل نہیں تو اسے فروخت کر کے دوسرا جانور خریدا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم قربانی کرنے والا کن امور سے اجتناب کرے؟ جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ جیسا کہ امّ سلمہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: