کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 77
ہے کہ ﴿يُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ﴾ (الدہر : 7) ”وہ نذر پوری کرتے ہیں ۔“ اور ایک حدیث میں ہے کہ”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کی نذر مانی، وہ اس کی اطاعت کرے (یعنی اس نذر کو پورا کر لے)۔“(بخاری :6696) (2)کسی جانور کے متعلق اگر یہ نیت کر لی جائے کہ یہ اللہ کے لیے ہے یا یہ صرف قربانی کے لیے ہے تو پھر اسے اللہ کے لیے قربان کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اب وہ وقف ہو چکا ہے اور وقف چیز کا حکم یہ ہے کہ نہ تو اسے فروخت کیا جا سکتا ہے، نہ اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے وراثت میں تقسیم کیا جا سکتا ہے بلکہ اسے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی صرف کیا جائے گا جیسا کہ صحیح مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے یہ بات ثابت ہے۔(دیکھئے مسلم:4224) (3)اگر کوئی شخص حالت ِاحرام میں شکار کے جانورکو قتل کر بیٹھا تو اس پر فدیہ کے طور پر قربانی لازم ہو جائے گی۔ (دیکھئے المائدۃ :95) (4)حج تمتع یا حج قران کرنے والوں کے لیے بھی قربانی کرنا واجب ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فقہ الحدیث از راقم اورمناسکِ حج از البانی جو قربانی کی طاقت نہیں رکھتا، وہ کیا کرے؟ جیسا کہ گذشتہ سطور میں بیان کیا جا چکا ہے کہ قربانی سنت ِموکدہ ہے اور تقربِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔ اس لیے جو قربانی کر سکتا ہے اسے ضرور قربانی کرنی چاہیے لیکن اگر کوئی اس کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو تو یقینا اسے قربانی نہ کرنے سے کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ کیونکہ یہ تو سنت ہے اور اگر انسان طاقت نہ ہونے کی وجہ سے فرض زکوٰۃ بھی ادا نہ کرے یا فرض حج بھی نہ کرے تب بھی اس پر بالاتفاق کوئی گناہ نہیں ۔ ہاں ایسا شخص اگر قربانی کا اجر حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہونے کے بعد اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے، بلکہ عید کے روز تک انہیں موٴخر کر دے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر وبن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مجھے یوم الاضحی کو عید کا حکم دیا گیا ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ ایک آدمی نے عرض کیا: آپ مجھے بتلائیں کہ اگر میں قربانی کے لیے موٴنث دودہ دینے والی بکری کے سوا نہ پاؤں تو کیا اس کی قربانی کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ،لیکن تم اپنے بال