کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 75
ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو جاری وساری کر دیا۔ لامحالہ ہم سے بھی اسلام صرف جانوروں کی قربانی نہیں چاہتا بلکہ اس جذبہ اطاعت اور خشیت ِالٰہی کو بھی اُجاگر کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعے ہم اپنی ہر چیز بوقت ِضرورت اللہ تعالی کی خاطر قربان کردینے کے لیے تیار ہوجائیں ۔ اور یقینا آج اسلام کو جانوروں کی قربانیوں سے کہیں زیادہ ہماری محبوب ترین اشیا یعنی مال، اولاد اور جان کی قربانیوں کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس عمل کو محض ایک تہوار ورسم سمجھتے ہوئے تفاخر اور ریاء ونمود کا ذریعہ ہی نہ بنا ڈالیں کہ جس کے باعث ہمیں دنیا میں تو اسلامی شعائروروایات اپنانے کا اعزاز مل جائے لیکن ہماری عقبیٰ تباہ وبرباد ہو کر رہ جائے بلکہ ہمیں چاہیے کہ اس عمل کے پیچھے چھپی اُس عظیم قربانی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ایمانوں کو اس قابل بنائیں جو ہمیں دنیاوی لہو ولعب اور مصنوعی عیش ونشاط سے نکال کر اپنی زندگی کا ہر لمحہ اور ہر گوشہ رضاے الٰہی کی خاطر قربان کر دینے کے لیے تیار کردے۔
قربانی کا معنی ومفہوم اور وجہ تسمیہ
لفظ قربانی ’قربان‘ سے مشتق ہے اور مصباح اللغات کی رو سے لغوی طورپر قُربان سے مراد
”ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ کا تقرب حاصل کیا جائے چاہے ذبیحہ ہو یا کچھ اور“ (ص668)
صاحب ِقاموس فرماتے ہیں کہ ”قُربان’ضمہ ‘کے ساتھ یہ ہے کہ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جائے۔“(القاموس المحیط:ص127)
صاحب المعجم الوسیط فرماتے ہیں کہ ”قربان ہر وہ چیز ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے خواہ وہ ذبیحہ ہو یا اس کے علاوہ کچھ اور۔“(المعجم الوسیط :ص723)
بعض علما نے کہا ہے کہ لفظ ِ قربانی قرب سے مشتق ہے چونکہ اس عمل کے ذریعے قربِ الٰہی حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے، اسی لیے اسے قربانی کا نام دیا گیاہے۔
اصطلاحی اعتبار سے قربانی سے مراد
”اونٹ، گائے اوربھیڑ بکریوں وغیرہ میں سے کوئی جانور عید الاضحی کے دن یا ایامِ تشریق میں اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے قربان کرنا ہے۔“ (فقہ السنة ازسید سابق :3/195)
قربانی کی مشروعیت
قربانی ابراہیم علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کی سنت ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان دونوں انبیا کی سنت اپنانے اور اتباع کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔(آلِ عمران:31)