کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 72
”وھ خدا جس نے ایک غیر متمدن قوم میں سے اپنا ایک رسول پیدا کیا جو اللھ کی آیات اس کو سناتا ہے، اس کے نفوس کا تزکیہ کرتاہے، اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔“
پس اُنہوں نے جو قوم پیدا کردی تھی، اس کے اندر سے ایک پیغمبر اُٹھا۔ اس نے اس گھر میں سب سے پہلے خدا کو ڈھونڈنا شروع کیا، لیکن وھ اینٹ پتھر کے ڈھیر میں بالکل چھپ گیا تھا۔ فتح مکہ نے اس انبار کو ہٹا دیا تو خدا کے نور سے قندیل ِحرم پھر روشن ہوگئی۔ وہ قوم جس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی، اس پیغمبر کے فیض صحبت سے بالکل مزکیٰ وتربیت یافتہ ہوگئی تھی۔ اب ایک مرکز پرجمع کرکے اس کے مذہبی جذبات کو صرف جلا دینا باقی تھا۔ چنانچہ اس کے خانہ کعبہ کے اندر لاکر کھڑا کردیا گیا، اور اس کی مقدس قدیم مذہبی یادگاروں کی تجدید و احیا سے اس کے مذہبی جذبات کو بالکل پختہ و مستحکم کردیا، کبھی ان سے کہا گیا :
﴿ إنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِاعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أنْ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا﴾ (البقرۃ:158)
”صفا و مروھ خدا کی قائم کی ہوئی یادگاریں ہیں ، پس جو لوگ حج یا عمرہ کرتے ہیں ، اُن پر اِن دونوں کے درمیان طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔“
کبھی ان کو مشعر حرام کی یاد دلائی گئی:
﴿فَإذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوْا اللهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ﴾ (البقرۃ:198)
”جب عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام (مزدلفہ) کے نزدیک خدا کی یادکرو۔“
خانہٴ کعبہ خود دنیا کی سب سے قدیم یادگار تھی، لیکن اسکی ایک ایک یادگار کو نمایاں تر کیا گیا:
﴿فِيْهِ آيَاتٌ بَّيِّنَاتٌ مَّقَامُ إبْرَاهِيْمَ﴾ (آل عمران:97)
”اس میں بہت سی کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔منجملہ ان کے ایک نشانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔“
لیکن جو لوگ خدا کی راہ میں ثابت قدم رہے، ان کے نقش پا سجدہ گاہ خلق ہونے کے مستحق تھے، اس لئے حکم دیا گیا :
﴿وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إبْرَاهِيْمَ مُصَلًّى﴾ (البقرۃ:125)
”اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو اپنا مصلیٰ بنا لو۔“
مادّی یادگاروں کی زیارت صرف سیرو تفریح کے لئے کی جاتی ہے، لیکن روحانی یادگاروں سے صرف دل کی آنکھیں ہی بصیرت حاصل کرسکتی ہیں ۔ اس لئے ان کے ادب و احترام کو