کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 71
جواب دیا کہ ہم تیرے اور تیرے مقدس باپ ابراہیم و اسماعیل و اسحق کے خدا ے واحد کی عبادت کریں گے، اور ہم اسی کے فرمانبردار بندے ہیں ۔“ (البقرہ:133) آثارِ قائمہ و ثابتہ اب اگرچہ یہ جماعت دنیا میں موجود نہ تھی اور اس کے آثارِ صالحہ کو زمانے نے بے اثر کردیا تھا : ﴿تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ﴾ (البقرۃ:134) ”وہ قوم گذر گئی، اس نے جو کام کئے اس کے نتائج اس کے لئے تھے، اور تم جو کچھ کرو گے اس کے نتائج تمہارے لئے ہوں گے۔“ لیکن اس کی تربیت و نشوونما کا عہد ِقدیم اب تک دستبردِ زمانہ سے بچا ہوا تھا، اور اپنے آغوش میں مقدس یادگاروں کا ایک وسیع ذخیرہ رکھتا تھا۔ اس کے اندر اب تک آبِ زمزم لہریں لے رہا تھا، صفا و مروہ کی چوٹیوں کی گردنیں اب تک بلند تھیں ، مذبح ِاسماعیل اب تک مذہب کے گرم خون سے رنگین تھا، حجر اسود اب تک بوسہ گاہ خلق تھا، مشاعر ِابراہیم اب تک قائم تھے، عرفات کے حدود میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تھی، غرض کہ اس کے اندر خدا کے سوا سب کچھ تھا اور صرف اسی کے جمالِ جہاں آرا کی کمی تھی۔اس لئے اس کی تجدید و نفخ ِروح کے لئے ایک مدت کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا سب سے آخری نتیجہ ظاہر ہوا۔ اُنہوں نے کعبۃ اللہ کی بنیاد رکھتے ہوئے دعا کی تھی: ﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ إنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ﴾(البقرۃ:129) ”خدایا! ان کے درمیان انہی لوگوں میں سے ایک پیغمبر بھیج کہ وہ ان کو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور ان کے نفوس کا تزکیہ کردے تو بڑا صاحب ِاختیار اور صاحب ِحکمت ہے۔“ چنانچہ اس کا ظہور وجودِ مقدس حضرت رحمتہ للعالمین و خاتم المرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی صورت میں ہوا، جو ٹھیک ٹھیک اس دعا کا پیکر و ممثل تھا : ﴿هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِىْ الأُمِّيِّيْنَ رَسُوْلاً مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيَاتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ﴾ (الجمعۃ:2)