کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 69
اُمت ِمسلمہ
لیکن ان تمام چیزوں سے مقدم اور ان تمام ترقیوں کا سنگ ِبنیاد ایک خاص اُمت ِمسلمہ اور حزبُ اللہ کا پیدا کرنا اور اس کا استحکام و نشوونما تھا۔
حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے حج کا مقصد اوّلین اسی کو قرار دیا تھا:
﴿رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ﴾ (البقرھ:128)
”خدایا! ہم کو اپنا فرمان بردار بنا، ہماری اولاد میں سے اپنی ایک امت ِمسلمہ پیدا کر، اور اگر ہم سے اس فرماں برداری میں کوئی لغزش ہو تو اس کو معاف فرما، تو بڑا مہربان اور معاف کرنے والا ہے۔“
لیکن جس قالب میں قومیت کا ڈھانچہ تیار ہوتا ہے، اس میں دو قوتیں نہایت شدت اور وسعت کے ساتھ عمل کرتی ہیں : آب و ہوا اور مذہب۔ آب و ہوا اور جغرافیانہ حدودِ طبیعیہ اگرچہ قومیت کے تمام اجزا کو نہایت وسعت کے ساتھ اِحاطہ کرلیتے ہیں ، لیکن ان کے حلقہ اثر میں کوئی دوسری قوم نہیں داخل ہوسکتی۔ یورپ اور ہندوستان کی قدیم قومیت نے صر ف ایک محدود حصہ دنیا میں نشوونما پائی ہے، اور آب و ہوا کے اثر نے ان کو دنیا کی تمام قوموں سے بالکل الگ تھلگ کردیا ہے۔ لیکن مذہب کا حلقہ اثر نہایت وسیع ہوتا ہے۔ وہ ایک محدود قطعہ زمین میں اپنا عمل نہیں کرتا بلکہ دنیا کے ہر حصے کو اپنی آغوش میں جگہ دیتا ہے۔ کہ آب و ہوا کا طوفان خیز تصادم اپنے ساحل پر کسی غیرقوم کو آنے نہیں دیتا مگر مذہب کا اَبر ِکرم اپنے سائے میں تمام دنیا کو لے لیتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جس عظیم الشان قوم کا خاکہ تیار کررہے تھے۔اس کا مایہٴ خمیر صرف مذہب تھا، اور اس کی روحانی ترکیب عنصر آب وہوا کی آمیزش سے بالکل بے نیاز تھی۔ جماعت قائم ہوکراگرچہ ایک محسوس مادّی شکل میں نظر آتی ہے، لیکن درحقیقت اس کا نظامِ ترکیبی بالکل روحانی طریقہ پر مرتب ہوتا ہے۔ جس کو صرف جذبات وخیالات، بلکہ عام معنوں میں صرف قوائے دماغیہ کا اتحاد و اشتراک ترتیب دیتاہے۔اس بنا پر اس قوم کے پیدا ہونے سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک مذہبی رابطہ اتحاد کے سررشتہ کو مستحکم کیا :
﴿ إذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ وَوَصّٰى بِهَا إِبْرَاهِيْمُ بَنِيْهِ وَيَعْقُوْبُ يَا بُنَيَّ