کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 68
و اجتماعِ عام پر موقوف تھا، اس لئے جب کامل امن و امان قائم ہوگیا اور حج نے راستے کے تمام نشیب و فراز ہموار کردیے تو اس وقت اللہ نے مسلمانوں کو تمدن کی اس منفعت ِعظیمہ کی ترغیب ِعام دی۔
مقاصد ِاعلیٰ و حقیقیہ
لیکن اس تصریح و توضیح کے علاوہ قرآنِ حکیم کا ایک طرزِ خطاب اور بھی ہے جو صرف خواص کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ قرآنِ حکیم کا عام انداز بیان یہ ہے کہ وہ جن مطالب کو عام طور پر ذہن نشین کرنا چاہتا ہے یا کم از کم وہ ہر شخص کی سمجھ میں آسکتے ہیں ، ان کو تو نہایت کھلے الفاظ میں ادا کردیتا ہے۔ لیکن جن مطالب ِدقیقہ کے مخاطب صرف خواص ہوتے ہیں اور وہ عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتے، ان کو صرف اشارات و کنایات میں ادا کرتا ہے۔
مقاصد ِحج میں ’تجارت‘ ایک ایسی چیز تھی جس کا تعلق ہر شخص کے ساتھ تھا، اور اس کے فوائد و منافع عام طور پر سمجھ میں آسکتے تھے، اس لئے خدا نے اس کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا۔ لیکن حج کا ایک اہم مقصد اور بھی تھا جس کو اگرچہ صراحتاً بیان نہیں کیا گیا، لیکن قدم قدم پر اس کی طرف اس کثرت سے اشارے کئے کہ اگر ان تمام آیتوں کو جمع کردیا جائے تو کئی صفحے صرف انہی سے لبریز ہوجائیں …!!
حقائق و معارفِ الٰہیہ کے اظہار میں قرآن حکیم نے عموماً اسی قسم کا طرزِ خطاب اختیار کیاہے جس سے باوجود ایہام کے حقیقت کا چہرہ بالکل بے نقاب ہوجاتاہے: ﴿وَمَا يَعْقِلُهَا اِلاَّ الْعَالِمُوْنَ﴾(العنکبوت:43)سفر حج درحقیقت انسانی ترقیوں کے تمام مراحل کا مجموعہ ہے۔اس کے ذریعہ انسان تجارت بھی کرسکتا ہے، علمی تحقیقات بھی کرسکتا ہے، جغرافیہ اور سیاحت ِعلمیہ کے فوائد بھی حاصل کرسکتا ہے، مختلف قوموں کے تمدن و تہذیب سے آشنا بھی ہوسکتا ہے، ان میں باہم ارتباط و علائق بھی پیدا ہوسکتے ہیں ، اشاعت ِمذہب و تبلیغ حق و معروف کا فرض بھی انجام دے سکتا ہے، سب سے آخر اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تمام عالم کی اصلاح و ہدایت، و انسدادِ مظالم و فتن، وقلع و قمع ِکفار و مفسدین ، و اعلانِ جہاد فى سبيل الحق والعدالة کے لئے بھی وہ ایک بین الملی مرکز و مجمع ِعمومِ اہل ارض کا حکم رکھتا ہے۔