کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 67
﴿لِيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوْا اسْمَ اللهِ فِيْ أيَّامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ﴾ (الحج:28) ”حج کا مقصد یہ بھی ہے کہ لوگ اپنے اپنے فوائد کوحاصل کریں اور چند مخصوص دنوں میں خدا کو یاد کرلیا کریں ۔“ حج اور بین الاقوامی تجارت اس آیت میں قرآنِ حکیم نے جن فوائد کو حج کا مقصد قرار دیا ہے، ان سے اجتماعی واقتصادی فوائد مراد ہیں ، اور یہ حج کاایک ایسا اہم مقصد ہے کہ ابتدا میں جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دینی مقاصد کے منافی سمجھ کر اسے بالکل چھوڑ دینا چاہا تو اللہ نے ایک خاص آیت نازل فرمائی: ﴿لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّكُمْ﴾ (البقرۃ:198) ”اگر زمانہٴ حج میں تجارتی فوائد حاصل کرو تو اس میں مذاہب کا کوئی نقصان نہیں ۔“ قرآنِ حکیم کا عام طرزِ خطاب یہ ہے کہ وہ جزئیات سے کسی قسم کا تعرض نہیں کرتا۔ اس کی توجہ ہمیشہ اہم باتوں کی طرف مبذول رہتی ہے۔اس بنا پر خداوند ِتعالیٰ نے جس قسم کی تجارت کو حج کا مقصد قرار دیا اور اس کی ترغیب و حوصلہ افزائی کی، وہ عرب کی اقتصادی و تمدنی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ تھا۔ عرب اگرچہ ایک بادیہ نشین اور غیر متمدن قوم تھی، تاہم معاش کی ضرورتوں نے اس کو تمدن کی ایک عظیم الشان شاخ یعنی تجارت کی طرف ابتدا ہی سے متوجہ کردیا تھا۔ قریش کا قافلہ عموماً شام وغیرہ کے اَطراف میں مال لے کر جایا کرتا تھا، اور ان لوگوں نے وہاں کے رہنے والوں سے مستقل طرز پرتجارتی تعلقات پیدا کرلئے تھے۔ خود مکہ کے متصل عکاظ اور ذوالمجاز وغیرہ متعدد بازار قائم تھے اور وہ حج کے زمانے میں اچھی خاصی تجارتی منڈی بن جاتے تھے۔ پس اہل عرب کو نفس ِتجارت کی طرف متوجہ کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی، لیکن اسلام جو عظیم الشان و عالمگیر مدنیت پیدا کرناچاہتا تھا، اس کی گرم بازاری کے لئے عکاظ، ذوالمحیۃ اور ذوالمجاز کی وسعت کافی نہ تھی، وہ دنیا کی تمام متمدن قوموں کی طرح تجارت بین الاقوام کا مستقل سلسلہ قائم کرنا چاہتا تھا، کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ عنقریب آفتابِ اسلام حجاز کی پہاڑیوں سے بلند ہوکر تمام بحر وبر پر چمکنے والا ہے!! پس اس آیت ِکریمہ میں جن اقتصادی و تجارتی فوائد کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ ایک وسیع بین الملی تجارت کا قیام ہے۔ ورنہ اہل عرب جس قسم کی تجارت کرتے تھے، وہ تو ہرحالت میں قائم رکھی جاسکتی تھی، اور قائم تھی۔ البتہ تجارت بین الاقوام کا سلسلہ بالکل قیامِ امن و بسط ِعدل