کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 66
فلسفہ شریعت مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ مقاصد ِحج اور اُمت ِمسلمہ کا قیام دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام کی ایک مابہ الامتیاز خصوصیت یہ ہے کہ اس نے تمام عبادات و اَعمال کا ایک مقصد متعین کیااور اس مقصد کو نہایت صراحت کے ساتھ ظاہر کردیا۔ نماز کے متعلق تصریح کی: ﴿إنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ﴾ (العنکبوت:45) ”نماز ہر قسم کی بداخلاقیوں سے انسان کو روکتی ہے۔“ روزے کے متعلق فرمایا: ﴿ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ ”روزے کے ذریعہ تم لوگ پرہیزگار بن جاوٴ گے۔“ زکوٰۃ کی نسبت بیان کیا : ﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا﴾ (التوبہ:103) ”ان کے مال و دولت میں سے ایک حصہ بطورِ صدقہ لے لو، کیونکہ تم اس کے ذریعہ ان کو بخل اور حرص و طمع کی بداخلاقیوں سے پاک و صاف کرسکو گے“ مختلف احادیث نے اس سے زیادہ تصریح کردی: الصدقة أوساخ المسلمين… توٴخذ من أغنيائهم وتردّ على فقرائهم [1] ”صدقہ مسلمانوں کا میل ہے، ان کے دولت مندوں سے لے کر ان کے محتاجوں کو دے دیا جاتا ہے۔“ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حج کے فوائد و منافع کو بھی نہایت وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا: