کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 64
مخصوص چلے آرہے ہیں ، آپ نے فرمایا: ”قد أبدلكم الله بهما خيرا منهما يوم الأضحىٰ و يوم الفطر“ (سنن ابی داود) ”اللہ نے تمہیں جاہلیت کے ان تہواروں سے کہیں بہتر عیدالفطر اور عیدالاضحی کے دو دن عطا فرمائے ہیں ۔“ آپ کا مقصد یہ تھا کہ جاہلیت کے تہواروں کو چھوڑ کر اسلامی شعائر کو اپنایا جائےپیغمبر اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک لمحہ کے لئے بھی دین اسلام میں جاہلیت کی آمیزش کو گوارا نہ کیا، اور انسانی برادری کے ساتھ مل کر چلنے کو اہمیت نہیں دی، اظہار ِ مسرت کی خاطر جاہلیت کے تہوار ترک کرکے اسلامی عیدوں کو پیش فرمایا، جو نتائج و مزاج کے اعتبار سے جاہلیت کے تہواروں سے کہیں بہتر ہیں ، کیونکہ کفر و جاہلیت کی خوشی کی تقریبات میں شرم و حیا اور عفت وعصمت کی پامالی کے سب سامان ہوتے ہیں ؛ مے نوشی، رقص و سرور کی محافل میں جنسی اختلاط جیسی خرافات جبین انسانیت کو داغدار کرتی ہیں ۔ اسلام آیا تو اس نے خوشی کے دو دنوں کو برقرار رکھا، لیکن جاہلیت کی رسومات و خرافات کا خاتمہ کرکے ان کی جگہ عبادات اور سجود و صلوٰۃ کو رائج کردیا۔ یومِ عید کے ہر سال پلٹ کر آنے میں وقت کے حکمرانوں کے لئے بھی درسِ عبرت ہے کہ وہ اہل جاہلیت کے ساتھ مصالحت اوران سے اتحاد کی پینگیں ڈالنے کی بجائے اپنے اسلام کی طرف لوٹیں اور ایک ایسی ریاست میں جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی ہے، دستورِ اسلام کا نفاذ کریں اور مسلمانوں کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں ۔ اسلام غیرت مندوں کا دین ہے، اسے ائمہ کفر کی چوکھٹ پر ذلیل نہ کریں ، اور کسی بھی جامع مسجد میں عید کی نماز ادا کرتے وقت وہ پیغمبر اسلام کے اس فرمان کو عملی جامہ پہنانے کا عہد کریں کہ ”اسلام غالب ہونے کے لئے آیا ہے“ … لہٰذا اسے مغلوب نہ ہونے دیں ۔ دوسری طرف عوام جب نمازِ عید سے فارغ ہوکر اپنے گھروں کو واپس لوٹیں تو وہ اپنے گھروں سے جاہلیت کے تمام عادات و اثرات کے استیصال کا عہد کریں ، کیونکہ وہ اپنے گھروں کے سربراہ اور منتظم ہیں ”كلكم راع وكلكم مسؤل عن رعيته“ (الحدیث) اور وہ اس بات کو پورے یقین و اعتماد سے لیں کہ ان کی بچیوں اور عورتوں کی عزت اور ان کی عفت وعصمت کی حفاظت عریانی اور اپنے محاسن کے اظہار میں نہیں لہٰذا انہیں باپردہ ہوکر