کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 63
شعائر ِاسلام
عیدالاضحی کا پیغام؛مسلمانانِ عالم کے نام!
لفظ ِ ’عید‘ عود سے مشتق ہے، جس کا معنی لوٹنا اور بار بار پلٹ کر آنا ہے۔ اس کا نام عید اس لئے ہے کہ یہ ہر سال لوٹ کر آتی ہے اور کسی بھی چیز کے پلٹ کر آنے میں کوئی نہ کوئی حکمت پنہاں ہوتی ہے اور عید کے ہر سال لوٹ کر آنے میں بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ سبق یاد دلانا مقصود ہوتا ہے کہ وہ جاہلیت کے اَطوار و عادات اور اہل جاہلیت کی تہذیب و ثقافت کو چھوڑ کر اپنے اصل اسلام کی طرف لوٹ آئیں ، کیونکہ اسی سے ان کی کھوئی ہوئی عزت بحال ہوسکتی ہے۔ اقوامِ عالم پر قیادت کا حق جو ان سے چھن چکا ہے اور لوگوں کی صحیح رہنمائی کا دامن جو ان کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے، تب نصیب ہوگا جب مسلمان، غیر مسلموں کی نقالی چھوڑ کر حقیقی دین و شریعت کی طرف پلٹ آئیں گے، اور اس بات کو سمجھ جائیں گے کہ اسلام، تمام مذاہب ِعالم سے بلند و بالا ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے نام ایسا پیغام ہے جو جاہلیت کی آمیزش اور اہل جاہلیت کے رسم و رواج کی ملاوٹ کو ہرگز قبول نہیں کرتا، دین اسلام میں کوئی بھی شخص آدھا مسلمان آدھا انگریز، اور آدھا تیتر آدھا بٹیر بن کر ان برکات کو ہرگز حاصل نہیں کرسکتا جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ماننے والوں سے کیا ہے۔ اسلام کی برکات کے حصول کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے کہ اہل اسلام کفر و جاہلیت کی خاردار وادیوں سے دامن چھڑا کر اپنے اصل دین کی طرف لوٹ آئیں ، تب ہی انہیں عید کی خوشیاں منانا زیب دیتا ہے!! یہ وہ سبق ہے جسے ذہن نشین کرانے کے لئے عید کا دن ہر سال پلٹ کر آتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ ان میں کھیل کود اور خوشی منانے کے لئے دو دن ’نور روز اور مہر جان‘ کے نام سے مقرر ہیں ۔ آپ نےان سے پوچھا:یہ تہوار کیسے ہیں ؟ انہوں نے کہا: ”كنا نلعب فيهما في الجاهلية“ اے اللھ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ دن جاہلیت سے ہمارے ہاں لہو ولعب کے لئے