کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 62
مینار قسطوں میں گر رہے ہیں ۔ بے حسی چلن بن چکی ہے اور ’مجذوب قوم‘ حال مست ہے۔ جس خوف نے نائن الیون کی رات سے ہمارے حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، وہی خوف پوری قوم کے رگ و پے میں بھی سرایت کرچکا ہے۔ خوفزدہ بستیاں اپنی آن بچانے کا ہنر بھول جاتی اور اپنے دل کی تسلی کے عجب سامان پیدا کرلیتی ہیں ۔لاہور میں مسجد شہدا کے سامنے جوہری پروگرام کے زیر حراست معماروں کی آہ و بکا کرتی مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں جمع ہوئیں تو قریبی تاجروں نے انہیں کرسیاں پیش کیں اور پھر یہ کہہ کر دکانوں کو پلٹ گئے کہ ”کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دینا۔“ بھرے بازار میں کوئی نہ تھا جو ان کے ساتھ آنسو بہانے کی خاطرکھڑا ہوجاتا۔ میں نے آج آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے چہرے پر نظرڈالی تو اس کی ایک ایک شکن میں خوف کے خیمے تنے دیکھے۔کرب کے ایسے لمحوں میں افتخار عارف میری بڑی دستگیری کرتا ہے۔ اس کی ایک نظم…
[1] ہیڈ ڈویژن ، اسلامک اینڈ اورینٹل لرننگ یونیورسٹی آف ایجوکیشن ، وحدت روڈ ، لاہور