کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 61
پوش گلیوں کے بیچ و بیچ مارچ کرتے ہوئے ’اللہ اکبر‘ اور ’امریکیو! واپس جاوٴ‘ کے نعرے لگا سکتے ہیں ، ان کا کوئی کیا بگاڑ لے گا؟ طالبان جیسے درویشانِ خدا مست کو کوئی کیسے مٹا سکے گا جو حکمرانی کے کروفر کو پاوٴں کی ٹوٹی ہوئی چپل جتنی اہمیت بھی نہیں دیتے اور جن کے لئے عزتِ نفس سے آراستہ زندگی کی ایک سانس، غلامانہ زندگی کے ہزار سالوں سے بہتر ہے۔
اگر نائن الیون نے کسی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے، اگر کسی ملک کے جیتے جاگتے انسانوں کو برف کی سلیں بنا دیا ہے اور اگر کسی ملک کو خودی کی ڈور سے کٹ جانے والی آوارہ پتنگ بنا کے رکھ دیا ہے تو وہ صرف پاکستان ہے!!
جنوں لٹ جانے والے اثاثوں کا گوشوارہ مرتب کرے تو شنگ و خشت کی دیواریں بھی ہچکیاں لینے لگیں ۔ یہ عرصہ ہر اُس شے کونگل گیا جسے ہم نے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم کی سب سے نمایاں کارنس پرسجا رکھا تھا۔ ہماری سرزمین کی حرمت، ہمارے گھروں کا تقدس، ہمارے ہوائی اڈوں کی آبرو، ہمارے انجینئروں کی تحریم، ہمارے ڈاکٹروں کی تعظیم، ہمارے اہل خیر کی تکریم، ہمارے نظریہٴ جہاد کی عظمت، ہماری قومی آزادی و خود مختاری، جہادِ کشمیر سے ہماری لازوال وابستگی، افغانستان سے ہمارا تاریخی رشتہ و تعلق، بھارت کے سامنے ہماری جرأت مندانہ استقامت… ”سب کچھ حوالہ شب ِ تاریک ہوگیا!“
اب ہمارا جوہری پروگرام، غریب کی خوبرو بیٹی کی طرح سربازار ہورہا ہے اور زمانے بھر کے اوباش قہقہے لگا رہے ہیں ۔ سب کچھ گنوا دینے کے بعد بھی خوش گماں دستر خوانی قبیلہ یہ سمجھتا ہے کہ دو تین سائنس دانوں کے گلے میں ذلت و رسوائی کا طوق ڈال دینے سے بلا ٹل جائے گی؛ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ کسی کی ڈاکٹر قدیر اور دوسرے جوہری سائنس دانوں سے نہ کوئی ذاتی دشمنی ہے، نہ لین دین۔ ہمارے قومی افتخار کی ان علامتوں کو چٹکیوں میں مسل دینے کے بعد اس ’گناہ‘ کوبے نام و نشان کرنے کی کوشش کی جائے گی جس کا ارتکاب ان سائنس دانوں نے کیا۔ مجھے دھڑکا سا لگا ہے کہ کسی بھی وقت فتنہ ساماں آندھیوں کا رخ فوج کے ادارے کی طرف موڑ دیا جائے گا اور فساد کی آگ جانے کیا کچھ بھسم کر ڈالے گی!!
ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دو فلک بوس مینار تو چند لمحوں میں زمین بوس ہوگئے لیکن ہمارے اندر کے