کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 60
بسنت کی رنگینیوں میں گم قوم کی مست حالی جناب عرفان صدیقی
غیرتِ قومی اور امریکہ!
ایسی کیفیت کبھی طاری نہیں ہوئی؛ دل کے عین وسط میں ایک انگارہ سا مسلسل دہک رہا ہے۔ دماغ میں دوڑتی باریک رگوں میں جیسے کوئی مسلسل سوئیاں سی چبھو رہا ہے، اعصاب شکستگی سے نڈھال اور خستگی سے چو ُر ہیں ۔ سوچ کی مرجھائی شاخ پر کسی خیال کی کوئی کونپل نہیں پھوٹ رہی۔ قلم پر اُنگلیوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے اور لفظ روٹھ جانے والے دوستوں کی طرح میری فکر سے گریزاں ہیں ۔ نوحے لکھتے لکھتے تھک چکا ہوں اور آنکھوں سے شکستہ خوابوں کی کرچیاں چننے کا حوصلہ نہیں رہا۔ سرابوں کا تعاقب کرتے کرتے پاوٴں چھلنی ہوچکے ہیں اور دماغ اُسلوب و ہنر کے سارے قرینے بھولتا جارہا ہے!!
شکست ِخواب کے اس موسم نے دل و نظر کی ساری بستیاں ویران کردی ہیں ۔ وہ ساری علامتیں جو ہماری آنکھوں میں زندگی کی جوت جگاتیں ، ہمارے دلوں میں عزم و ہمت کے چراغ روشن کرتیں ، ہماری اُمنگوں اور تمناوٴں کو بال و پر عطا کرتیں ، ہمیں سربلند ہوکر پورے قد کے ساتھ کھڑا ہونے کا بانکپن بخشتیں اور اُداس شاموں میں بھی اُمید کی قوسِ قزح بن جایا کرتی تھیں ،ایک ایک کرکے ہچکیاں لے رہی ہیں ۔ وہ ساری علامتیں جنہیں ہم اپنے سر کا تاج سمجھتے، جنہیں اپنے ایمان و یقین کا جوہر قرار دیتے اور جنہیں اپنا سرمایہٴ افتخار جانتے تھے، آہستہ آہستہ مصلحتوں اور مفاہمتوں کے کوڑا دان میں پھینکی جارہی ہیں ۔
میں شاید پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ نائن الیون (۱۱/ستمبر)نے افغانستان اور عراق کا کچھ نہیں بگاڑا۔ چند انسانوں کا لہو اور کچھ عمارتوں کے کھنڈر تاریخ کی میزان میں بہت زیادہ وزن نہیں رکھتے۔ قوموں کی آبرو ان کے احساسِ خودی سے ہوتی ہے جو سوختہ ساماں ، امریکی فوج کی سنگینوں ، بڑے دہانے کی توپوں ، اور فولاد میں ڈھلے ٹینکوں کے سامنے، سلگتے گھروں اور سیاہ