کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 59
میں شریک ہوئے، نہ ہی انہوں نے سرکاری طور پر بسنت کی سرپرستی کی۔ ۲۰/جنوری ۲۰۰۴ء کو پتنگ بازی پر پابندی اُٹھائی گئی۔ اس کے بعد آنے والے پہلے اتوار (۲۵/جنوری) کو تین ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں ۔ ۲۰/سالہ ناصر جاوید دھاتی تار والی پتنگ پکڑتے ہوئے کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگیا۔شاد باغ کا ایک نوجوان علی موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ اس کے گلے میں پتنگ کی دھاتی تار پھر گئی۔(جنگ) درایں اثنا فیروز پور روڈ پر ایک موٹر سائیکل سوارسکندر اکرام کی گردن ڈور کی زد میں آکر کٹ گئی۔(نوائے وقت) ٭ حکومت ِپنجاب کو چاہیے کہ وہ شہریوں کی قیمتی جانوں کے تحفظ کے لیے پتنگ بازی پر پابندی اُٹھانے کے فیصلہ پر نظر ثانی کرے۔ بسنت اور پتنگ بازی جیسے جان لیوا شغل پر پابندی عائد ہونی چاہیے، کیونکہ… (1)ہندوٴ وں کے موسمی تہوار بسنت کا بنیادی فلسفہ اسلام کے ثقافتی نصب العین کے منافی ہے۔ (2)بسنت کے پردے میں پاکستان میں مغربی لبرل ازم کو فروغ دیاجا رہا ہے۔ (3)بسنت اور پتنگ بازی کی وجہ سے انسانی جانیں غیر محفوظ ہیں ۔ (4)پتنگ بازی کی وجہ سے واپڈا جیسے قومی اداروں کو اربوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ (5)بسنت کا نام نہاد تہوار اسراف وتبذیر اور فضول خرچی کا باعث بنتا ہے۔ (6)بسنت کے موقع پر ہلڑ بازی اور شور سے سماجی سکون تلپٹ ہوتاہے۔ (7)یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ لاہور میں بسنت پنجمی کا میلہ گستاخِ رسول حقیقت رائے دھرمی کی یاد میں شروع ہوا۔مسلمانوں کی دینی حمیت سے بعید ہے کہ وہ اس طرح کے میلے کو منائیں ۔(محمد عطاء اللہ صدیقی)