کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 58
کی اجازت دی۔ عوام الناس نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ مگر بسنت اور پتنگ بازی کی حامی تنظیموں اور اداروں کی طرف سے اس پابندی کے خلاف احتجاج جاری رہا۔
ضلعی حکومت کی طرف سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جسے پتنگ بازی پر پابندی کے بارے میں سفارشات مرتب کرنے کو کہا گیا۔ ضلعی ناظم میاں عامر محمود اس کمیٹی کے سربراہ تھے، دیگر ارکان میں سینیٹر خالد رانجھا، عارف نظامی، ضیاء شاہد، مجیب الرحمن شامی، ابتسام الٰہی ظہیر، مقصود احمد قادری، حیدرعلی مرزا، خالد سلطان، کائٹ ایسوسی ایشن کے ملک شفیع اور میاں عبدالوحید شامل تھے۔ موٴرخہ ۸/جنوری ۲۰۰۴ء کوکمیٹی نے اپنی سفارشات پیش کیں جس میں اتفاق رائے سے یہ مطالبہ شامل تھا کہ محض جشن بہاراں کے لئے مذکورہ پابندی غیر مشروط طور پر نہ اٹھائی جائے، دھاتی تار اور تندی کے استعمال کے باعث ہونے والے نقصان کی روک تھام کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔
کمیٹی کے ۸/ارکان نے پتنگ بازی پر پابندی مستقل طور پر برقرار رکھنے اور دس ارکان نے کھیل کے قواعد و ضوابط وضع کرکے اس کی اجازت دینے کے حق میں رائے دی۔ کمیٹی نے تجویز کیا کہ لاہور کی حدود میں پتنگ بازی پر مستقل طور پرپابندی عائد کردی جائے، تاہم شہر سے باہر کھلے میدانوں مثلاً جلوپارک، رائے ونڈ لاہور، لاہور پارک، ڈیفنس گراوٴنڈ، شاہدرہ گراوٴنڈ وغیرہ تک محدود کردیا جائے۔ دھاتی تار استعمال کرنے والوں سے جرمانہ وصول کیا جائے۔ ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی، وزراء، سرکاری افسران اور دیگر معروف شخصیات پتنگ بازی کی سرگرمیوں سے خود کو علیحدہ رکھیں تاکہ میڈیا ان سرگرمیوں کی نمایاں کوریج نہ کرسکے۔ موٹا دھاگہ استعمال کرنے پر پابندی کے علاوہ ان دنوں کے بعد سارا سال پتنگ اور ڈور کی خریدوفروخت پر مکمل پابندی عائد ہو۔ (نوائے وقت:۹/جنوری ۲۰۰۴ء)
مذکورہ بالا کمیٹی کی سفارشات کے علیٰ الرغم حکومت پنجاب نے ۲۰/ جنوری ۲۰۰۴ء سے ۲۰/ فروری ۲۰۰۴ء تک پتنگ بازی سے پابندی اٹھانے کا اعلان کیا۔ البتہ دھاتی ڈور اور تندی کے استعمال پر پابندی کو بدستور برقرار رکھا۔ (نوائے وقت:۱۵/جنوری ۲۰۰۴ء)
سنا ہے کہ ضلعی ناظم میاں عامر محمود اس پابندی کو اٹھانے کے حق میں نہیں تھے۔ وزیراعلیٰ پنجاب جناب پرویز الٰہی بھی بسنت اور پتنگ بازی کے حامی نہیں ہیں ۔ ۲۰۰۳ء کی بسنت کے موقع پر انہوں نے اپنے آپ کو بسنتی پروگراموں سے الگ تھلگ رکھا۔ وہ کسی بھی پروگرام