کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 57
گذارش کریں گے کہ وہ اپنے بچوں کو پتنگ بازی کے فصول شوق سے منع کریں ۔ سماجی انجمنوں کے راہنماوٴں ، علماے کرام اور معاشرہ کے بااثر افراد کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔“ (روزنامہ ’پاکستان‘ کا اداریہ، یکم جولائی ۲۰۰۳ء) (8)پتنگ بازی پر پابندی لگانے سے ہم ضلعی ناظم کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ ایسی پابندی پورے ملک میں لگائی جائے۔ (انجمن تاجرانِ گلبرگ، ایکسپریس،یکم جولائی ۲۰۰۳ء) (9)حکومت تین ماہ کی بجائے ہمیشہ کے لئے پتنگ بازی اور ڈور بنانے پرپابندی عائد کرے۔ پتنگیں بنانے اور اُڑانے والوں کو پھانسی دی جائے۔ (اینٹی کائٹ فلائنگ ایسوسی ایشن۔ ’پاکستان‘ یکم جولائی ۲۰۰۳ء) (10)ہمارے اس اقدام کا عوام نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ خیر مقدم کیا ہے۔ (11)”بہر کیف بعد از خرابی بسیار ہماری بلدیاتی حکومت نے اس طرف توجہ دی ہے اور اعلان کیا ہے کہ فی الحال تین ماہ کے لئے اس خون ریزی کا سامان بند رکھا جائے گا۔ اگر میاں عامر صاحب اس حکم پر عملدرآمد کرالیتے ہیں تو ان کو لاہوریوں کی طرف سے شاباش ملنی چاہئے۔“ (عبدالقادر حسن، جنگ کالم،۲۶/ جون ۲۰۰۳ء) (12)طویل عرصے بعد یہ پہلی اتوار تھی جب لوگوں نے چھٹی کا دن اپنے گھروں میں آرام سے گذرا۔ ( کالمعباس اطہر ’کنکریاں ‘: ۸ جولائی ۲۰۰۳ء) (13)میاں عامر کو مبارکباد کہ انہوں نے اہل لاہور کو ایک عذاب سے بچایا۔ (عبدالقادر حسن، جنگ کالم، ۹/ جولائی ۲۰۰۳ء) (3)پتنگ بازی پر پابندی کو لاہوریئے قبول نہیں کریں گے۔ (مخالفت میں واحد آواز) (یوسف صلاح الدین، ایکسپریس:۲ جولائی ۲۰۰۳ء) پتنگ بازی پر پابندی اگست ۲۰۰۳ء میں لاہور سٹی گورنمنٹ نے لاہور شہر میں پتنگ بازی پر دوماہ کے لئے پابندی لگا دی۔ سماجی حلقوں نے اس فیصلے کوبے حد سراہا اور مطالبہ کیا کہ یہ پابندی مستقل بنیادوں پر عائد کردی جائے۔ کائٹ فلائنگ ایسوسی ایشن نے اسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا مگر ضلعی حکومت نے بجلی ٹرپنگ، پانی کی بندش اور پتنگ بازی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے اَعدادوشمار کو اپنے دفاع میں ایں طور پیش کیا کہ ہائی کورٹ نے اس پابندی کو برقرار رکھنے