کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 56
۱۷ قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور گزشتہ سال لیسکو کو اڑھائی ارب کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ یہ بات حیران کن نہیں کہ اس پابندی کو ان دانشوروں نے بھی سراہا جنہوں نے بسنت کو قومی وثقافتی تہوار کے طور پر منانے کے لیے سو سو تاویلات پیش کی تھیں ۔ ذرائع ابلاغ نے اور سماجی حلقوں نے بھی اس پابندی کو نگاہِ تحسین سے دیکھا۔اس کے علاوہ لاہور کی خونی بسنت (۹/فروری ۲۰۰۳ء) کے بعد راولپنڈی ،گوجرانوالہ ،قصور اور حافظ آباد کے ضلعوں کے ناظمین نے اپنے اپنے ضلع میں بسنت منانے پر فوری طور پر پابندی عائد کر دی۔ درج ذیل منتخب بیانات اور رپورٹوں سے مثبت عوامی رد عمل کو بخوبی جانچا جا سکتا ہے: پابندی پرخیر مقدمی بیانات (1)پی ایچ اے کے سربراہ کامران لاشاری نے اس پابندی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”جو مزاجِ حکومت میں آئے ہمارا سرتسلیم خم ہے۔ پابندی پر میرا تبصرہ صرف اتنا ہے کہ ہم سرنگوں کردیں گے۔“ (نوائےوقت:۳/ جولائی ۲۰۰۳ء) (2)”پتنگ بازی پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔“ (وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کا بیان شائع شدہ جنگ: ۲/ جولائی ۲۰۰۳ء) (3)ضلعی حکومت لاہور نے انسانی جانیں بچانے کے لئے صحیح وقت پر صحیح قدم اٹھایا۔ (نوائے وقت: ۲/ جولائی ۲۰۰۳ء) (4)بے گناہ بچوں اور نوجوانوں کے خون سے پہلے ہی پتنگ بازی پر پابندی لگنی چاہئے تھی۔ (’انصاف‘ سروے: ۲/ جولائی ۲۰۰۳ء) (5)پتنگ بازی پر پابندی؛ ایک مستحسن فیصلہ۔ (روزنامہ ’دن‘ کا اداریہ، ۲جولائی ۲۰۰۳ء) (6)”میاں عامر محمود نے عوامی مفاد میں ایک انسانی قدم اٹھایا ہے تو اسے اپنے موقف پر چٹان کی طرح ڈٹ جانا چاہئے اور بے شک میاں عامر محمود اس سلسلہ میں مبارکباد اور شاباش کا مستحق ہے کہ اس نے ووٹ بنک اور مافیا کی پروا کئے بغیر معصوم اور بے گناہ شہریوں کے قتل عام کو لگام دینے کا آغاز کیا۔“ (حسن نثار کا کالم ’چوراہا‘ روزنامہ ’جنگ‘ ’قتل عام اور میاں عامر‘ ۲/ جولائی ۲۰۰۳ء) (7)”پتنگ بازی پر پابندی ضلعی حکومت کا پسندیدہ اقدام ہے۔ لیکن اس پر مکمل طور پر عمل درآمد نہ ہوا تو یہ ضلعی حکومت کی بدنامی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ہم والدین سے بھی