کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 55
کے لئے لاکھوں کا خرچہ ہوتاہے، موسیقی، راگ رنگ، اورمغنیات پر کروڑوں کا خرچ اُٹھتا ہے، بسنتی لباس تیار کرانے میں عورتیں بے دریغ خرچ کرتی ہیں ، یہ لباس شاید ایک دن ہی پہنا جاتا ہے۔ گھر گھر ضیافتیں اُڑائی جاتی ہیں ۔ کیا ان میں سے کوئی ایک خرچ بھی ایسا ہے جسے تعمیری کہا جاسکے۔ یہ سب اسراف و تبذیر، فضول خرچی اور عیاشی کے زمرے میں آتے ہیں ۔ عیاش اور متمول طبقہ بسنت کے موقع پر گوشت اور دیگر اشیاے ضرورت کا اس قدر زیادہ استعمال کرتا ہے کہ اس سے مارکیٹ کئی ہفتے متاثر رہتی ہے۔ طبقہ امرا کی انہی بے جا عیاشیوں کی وجہ سے گوشت جیسی اہم چیز غریب آدمی کی قوتِ خرید میں نہیں رہی۔
ایک ایسی قوم جس پر ۳۶/ ارب ڈالر کا قرضہ واجب الادا ہو، اس کے لئے اس طرح کے غیر تعمیری مصارف پر ایک دن میں اربوں روپے اُڑانا باعث ِفخر نہیں ، باعث ِشرم ہی ہے پتنگ بازی کے لئے استعمال ہونے والے سامان کا بہت سارا حصہ بھارت سے درآمد کیا جاتا ہے۔ ہمارے ماہرین معاشیات کو چاہئے کہ وہ قوم کو صحیح حقائق سے آگاہ کریں تاکہ بسنت مافیا نے اربوں روپے کے کاروبار کا جو ڈھونگ اورفسوں رچا رکھا ہے، اس کی حقیقت بھی واضح ہوجائے۔ جس قوم کی ۳۴ فیصد آبادی خط ِافلاس سے بھی نیچے زندہ رہنے پر مجبور ہو، اس قوم کی اشرافیہ کے لئے یہ بسنتی تعیشات وجہ افتخار نہیں ہوسکتے!!
مزید برآں لیسکو کے چیئرمین اور لاہور کے ضلعی ناظم کے بیان کے مطابق گزشتہ سال دھاتی تار کی وجہ سے بجلی کی ہونے والی ٹرپنگ سے لیسکو کو اڑھائی ارب کا نقصان اٹھانا پڑا۔ (پتنگ بازی پر پابندی کیوں ؟ از میاں عامر محمود ، روزنامہ پاکستان :یکم جولائی ۲۰۰۳ء)
بجلی کی بار بار ٹرپنگ سے گھریلو اشیا اور صنعتوں کی پیداوار کو پہنچنے والے نقصان کا تو اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ دوارب کے کاروبار کی بات کرنے والوں کوان نقصانات کوسامنے رکھ کر معاشی میزانیہ مرتب کرنا چاہیے۔
۲۰۰۳ء میں بسنت کو لاہور میں جوش وخروش سے منایا گیا،مگر سرکاری سرپرستی میں قدرے کمی آ گئی۔ دھاتی ڈور کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کا شدید ردّ عمل بھی سامنے آیا۔بسنت کے بعد بھی جب ہلاکتوں اور واپڈا کے نقصانات کا سلسلہ جاری رہا تو ضلعی حکومت اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور ہو گئی۔ یکم جولائی ۲۰۰۳ء سے پتنگ بازی پر پابندی لگا دی گئی۔میاں عامر محمود نے اس پابندی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو ماہ میں پتنگ بازی کی وجہ سے