کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 54
اجازت دی جاسکتی ہے جس کے نقصانات بھی بہت ہیں ۔
جب بھی کوئی ریاست کسی نفع بخش کاروبار یاپیشے کو معاشرے کے اجتماعی مفادات سے متصادم محسوس کرتی ہے، تو اس پر قانونی پابندیاں عائد کردیتی ہے، اس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس پابندی سے کتنے خاندانوں کا روزگار متاثر ہوگا۔ صوبہ سرحد کے سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان رہنے والے ہزاروں خاندان ایسے ہیں جو پوست (Poppy)کی کاشت سے ہزاروں روپے کی ماہانہ آمدنی حاصل کررہے تھے اور ان کا بظاہر کوئی متبادل ذریعہ معاش بھی نہیں تھا۔ مگر چونکہ اس سے ہیروئن پیداہوتی ہے، اس لئے اسے معاشرے کے لئے خطرناک سمجھ کر اس پر پابندی عائد کردی گئی۔
ابھی چند سال پہلے میاں نوازشریف کی حکومت نے شادی بیاہ کی تقریبات میں کھانوں پر پابندی عائد کردی تھی۔ شادی گھروں اور دیگر متعلقہ اداروں نے اس پر کافی احتجاج کیا اور سینکڑوں خاندانوں کے روزگار متاثر ہونے کا واویلا بھی بہت مچایا گیا، مگر چونکہ یہ پابندی معاشرے کے اجتماعی مفاد میں تھی، اسے سماجی حلقوں نے سراہا۔حال ہی میں لاہور میں ویگنوں کو ختم کر کے بڑی بسوں کو چلانے کی اجازت دی گئی ہے ۔حکومت کے اس فیصلے سے سینکڑوں خاندان متاثر ہوئے ہوں گے، اگر لاہور میں شراب کی کھلے عام اجازت دی جائے تو سینکڑوں خاندان شراب بنانے کو ذریعہ معاش بنا لیں گے۔مگر کیا محض چند سو خاندانوں کومعاشی وسائل فراہم کرنے کے لئے پورے معاشرے کونقصان پہنچانے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
آخر اس استدلال کا اطلاق نام نہاد پتنگ سازی کی صنعت پر کیوں نہیں کیا جاتا۔ مزید برآں پتنگ اور ڈور کا کاروبار چند ہفتوں پر محیط ہوتا ہے، بہت کم لوگ ہیں جو سارا سال اسی کاروبار سے وابستہ رہتے ہوں ۔
پتنگ بازی اور بسنت منانے کے حق میں دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ بسنت کے موقع پر اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ نجانے کس طرح اَعدادوشمار جمع کئے جاتے ہیں ، مگر کہا جاتا ہے کہ ہر سال تقریباً دو ارب روپے کا کاروبار ہوتاہے۔ اس کاروبار کی نوعیت کیا ہے؟ ہر سال کروڑوں روپے پتنگ اور ڈور پر خرچ کردیئے جاتے ہیں ، کروڑوں روپے کھابے اُڑانے میں ضائع کردیئے جاتے ہیں ، شراب وسیع پیمانے پر فروخت ہوتی ہے، ہوٹلوں کا کاروبار خوب چمکتا ہے۔ لاکھوں روپے لاہور کی شاہراہوں کو سجانے پر خرچ ہوجاتے ہیں ، عمارتوں کی آرائش