کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 53
ان معروضات کے بعد روزنامہ پاکستان کے اداریے کے یہ الفاظ دیکھئے: ”ہمارے نظریات اور خیالات واضح ہیں ۔ اسلام ہمارا سرمایہٴ حیات ہے اور ہماری کل کائنات ہے۔ اسلامی اقدار کا فروغ، ان کی پاسبانی اور ترجمانی ہمارے لئے وجہ اعزاز اور وجہ افتخار بھی۔ اسلام ہی ہماری منزل اور اسلام ہی ہماری آرزو ہے لیکن ہم بے روح مذہبیت اور قدامت پرستی کو اسلام قرار دینے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔“ محترم اداریہ نویس کے جذبات قابل تعریف ہیں ، مگر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے فرض کرلیا ہے کہ بسنت کی مخالفت کرنے والے سب لوگ ’بے روح مذہبیت‘ اور ’قدامت پرستی‘ کا شکار ہیں ۔ بسنت کے نام پر لہوولعب، خرافات، شراب و کباب اور ایک ہندوانہ تہوار کی مخالفت کو وہ جو چاہیں نام دیں ، ہم اسے ثقافتی لبرل ازم سمجھتے ہیں اور اسے اسلامی ثقافت قرار دینے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ اس اداریے کا آخری حصہ بھی قابل توجہ ہے : ”ہم پاکستان کے انتہائی ممتاز دانشور جناب اشفاق احمد سے متفق ہیں کہ یہ تہوار پتنگ میلہ ہے … یاد رکھئے ’پتنگ میلے‘ یا ’جشن بہاراں ‘ کے خلاف محاذ بنانا کارِ لاحاصل ہے، اسے اخلاقی حدود کا البتہ پابند رہنا چاہئے۔ … ’پتنگ میلے‘ یا ’بسنت‘ میں جہاں حدود سے تجاوز کیا جائے، وہاں عصائے احتساب کو گردش میں آنا چاہئے۔“ ہمارے خیال میں اس طرح کے لبرل ثقافتی فیسٹیول کواخلاقی حدود کا پابند بنانے کی خواہش ناقابل عمل ہے۔ اس طرح کے وسیع پیمانے پر ثقافتی ہنگامہ آرائی کو عصائے احتساب کو گردش میں لاکر کنٹرول کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ کسی کام کی کھلم کھلا آزادی دے کر اسے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ اس طرح کے غیر اخلاقی، سماج دشمن، انسانی جانوں کے لئے خطرناک پروگرامات کی شروع ہی سے بیخ کنی کی جائے۔ پتنگ بازی کے حق میں دلائل پتنگ بازی پر پابندی اُٹھانے کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پتنگ سازی ایک صنعت کا درجہ اختیار کرچکی ہے اور اس سے سینکڑوں خاندانوں کے روزگار وابستہ ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پتنگ اور ڈور کے کاروبار میں ہزاروں لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع ہیں ۔مگر دیکھنا یہ ہے کہ لاہور جیسے شہروں میں کیا ایسے کاروبار کو جاری رکھنے کی