کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 52
بادشاہوں نے نوروز جیسے سالِ نو کے معروف تہوار کو بھی کبھی نہیں منایا۔ ہندوستان میں بھی مسلمانوں نے ہندووٴں کے کسی تہوار کو اپنانے کی کوشش نہ کی۔ دو قومیتوں کی متصادم فطرت کے عنوان سے انگریز موٴرخ مرے ٹائٹیس کہتا ہے:
”بارہ طویل صدیوں تک اسلام ہندوستان میں ہندومت کے ساتھ ساتھ رہا۔ بارہ صدیوں تک دونوں قومیں ایک جانب قومیتی اولوالعزمیاں اور دوسری جانب قومیتی تحفظ کے فطری جذبے کی آویزش، اکثر و بیشتر چپقلشوں اور تنازعوں کا باعث بنی رہی اور آج تک جاری ہے۔“
(انڈین اسلام: صفحہ ۱۷۶، ۱۹۳۰ء)
جرمن فلاسفر اوسوالڈ اسپینگلر کے بقول: ”ایک مذہبی ثقافتی قوت کے لحاظ سے اسلام بیشتر حیثیتوں میں ہندومت کی عین ضد ہے۔“ (زوالِ مغرب)
پروفیسر عزیز احمد جو اسلامی کلچر پر اتھارٹی مانے جاتے ہیں ، اپنی معرکہ آرا تصنیف ’برصغیر میں اسلامی کلچر‘ میں لکھتے ہیں :
”ثانوی ہندوستانی ماحول اور نسلی اثرات سے گھرے رہنے کے باوجود ہندوستان میں اسلام نے ان تمام صدیوں میں اپنا غیر ملکی انداز برقرار رکھا۔ بقول جادوناتھ سرکار: ہندوستانی مسلمان بحیثیت ِکل بدیسی ذہن رہا۔ وہ محسوس کرتا تھا کہ وہ تھاتو ہندوستان میں لیکن اس کا جز نہیں تھا۔“ (صفحہ :۱۱۰)
(5) بلا شبہ اگر لوگ خوشیوں کے چند لمحے سمیٹنا چاہیں تو ان کے خلاف تلوار لے کر کھڑے نہیں ہونا چاہئے۔ مگر محترم اداریہ نویس یہ توبتائیں کہ جب ایک طبقے کی خوشیاں منانے کا انداز دوسرے طبقہ کے لئے عذاب بن جائے تو پھر کیا کیا جائے۔ جب بسنت کے نام پر لہوولعب اور شاہی قلعہ جیسے پروگرام ہونے لگ جائیں تو کیا پھر بھی چشم پوشی کی جائے؟ بسنت کے مخالف صرف علما ہی تونہیں ہیں ، نوائے وقت جیسے اخبارات، سماجی تنظیمیں اور ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں ۔ خوشیاں سمیٹنے کے اور بھی تو بہت طریقے ہیں ، آخر ہندوانہ تہوار پر ہی اصرار کیوں کیا جائے!!
(6) ہمارا بھی نقطہ نظر یہ ہے کہ ہر شے کو لہوو لعب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مگر گذشتہ چند برسوں میں ’بسنت‘ کے ’قومی تہوار‘ کا مشاہدہ کرنے والا کون سلیم الطبع شخص ہے جو اسے لہوو لعب نہیں سمجھتا؟ اگر کوئی شخص اسے لہوولعب نہیں سمجھتا، اسے چاہئے قرآن و سنت میں لہوو لعب کے تصور کا خود مطالعہ کرلے۔