کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 51
”بسنت اور پتنگ دو الگ الگ مشرکانہ عقائد اور تہواروں کا حصہ ہیں ۔ لیکن ان دونوں کا باہم ربط و تعلق کیسے ہوا۔ اس کا پس منظر ہم مسلمانوں کے لئے اس قدر غیرت آموز ہے کہ اگر ہم میں ذرّہ برابر بھی دینی حمیت ہو تو بسنت اور پتنگ کے قریب بھی نہ پھٹکیں ۔ درحقیقت ایک گستاخِ رسول حقیقت رائے دھرمی کو نسبت پنچمی کے روز اس کے جرم کی پاداش میں پھانسی دی گئی تھی۔ سکھوں نے بالآخر اس کا بدلہ ان تمام مسلمانوں کوبے دردی سے قتل کرکے لیا جواس وقوعہ میں کسی نہ کسی طریقے سے ملوث تھے۔ انتقام لینے کی خوشی میں سکھوں اور ہندووٴں نے حقیقت رائے دھرمی کے میلے کے روز اس کی سمادھ پر پتنگیں اڑائیں ۔ کیونکہ اس کی پھانسی کا دن بسنت پنچمی تھا۔ اس لئے لاہور میں جو سکھوں کا پایہٴ تخت تھا، بسنت و پتنگ لازم و ملزوم سمجھے جانے لگے۔“ (نوائے وقت : ۹/فروری ۲۰۰۳ء)
مشتاق پھلروان، جو پتنگ بازی کے حامی ہیں ، لکھتے ہیں :
”بعض قبائل میں پتنگ کے بھجن گائے گئے۔ پتنگ کو دیوتا مانا گیا۔ اس سے دعائیں اور مرادیں مانگی جاتی تھیں ۔ یہ اعتقاد بھی دیکھا گیا کہ پتنگ سے بھوت پریت نہیں آتے۔(کتابچہ :بسنت و پتنگ)
(3) اسلامی نقطہ نظر سے کسی بھی تہوار کی اچھائی یا برائی کا تعین کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی فکری بنیاد کو پرکھا جائے۔ اسلام نے اچھے تہوار (عیدین٭) خود بتا دیئے ہیں ، اس کے علاوہ کسی ایسے ثقافتی تہوار کو مسلم معاشرہ کے لئے قابل قبول نہیں قرار دیا جاسکتا، جس پر کسی دوسری قوم یا مذہب کی چھاپ ہو۔ بسنت کی فکری بنیاد اور اس کے منانے کاطریقہ دونوں ہی قابل اعتراض ہیں ۔
(4) تاریخی طور پر یہ بات درست نہیں ہے کہ اسلام نے اپنی پندرہ سو سالہ تاریخ میں مختلف مقامات پر مختلف مقامی تہواروں کو ’مشرف بہ اسلام‘ کیا، انہیں اخلاق کا جامہ پہنانے کی بات تو دورکی ہے۔مسلمانوں نے آٹھ سو برس تک سپین پر حکومت کی، انہوں نے کبھی عیسائیوں کے تہوار کرسمس کو ’مشرف بہ اسلام‘ کرنے کی کوشش نہ کی۔ انہوں نے فارس پر قبضہ کیا جو آج تک چلا آتا ہے، مگر کبھی انہوں نے پارسیوں کے کسی تہوار کو ’اخلاقی جامہ‘ پہنا کر نہیں منایا۔ مسلمان
٭ کتب ِاحادیث میں ہے کہ نبی کریم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے علاقائی تہواروں کو منوانے کی بجائے آپ نے فرمایا: قد أبدلکم ﷲ بہما خیرا منہما: یوم الأضحیٰ ویوم الفطر ( سنن ابو داود)
’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں جاہلیت کے تہواروں سے کہیں بہتر عید الفطر اور عید الاضحی کے دو تہوار عطا فرمائے ہیں۔‘‘