کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 50
(3)کوئی بھی ثقافتی تہوار اچھا یا برا نہیں ہوتا، اسکو منانے کے طریقے اسے اچھا یا بُرا بناتے ہیں . (4) مسلمانوں نے اپنی پندرہ سو سالہ تاریخ میں مختلف مقامات پر مختلف مقامی تہواروں کو ’مشرف بہ اسلام‘ کیا، انکے منانے پر پابندی نہیں لگائی، البتہ انہیں اخلاق کا جامہ پہنا دیا․ (5) ہر بات کو کفر اور اسلام کا جھگڑا بنانے کی روش نے ہمیں ماضی میں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اس لئے علمائے کرام اور مذہبی راہنماوٴں کو اس سے گریز کرنا چاہئے اور اگر لوگ خوشیوں کے چند لمحے سمیٹنا چاہیں تو ان کے خلاف تلوار لے کر کھڑے نہیں ہوجانا چاہئے۔ (6)جہاں لہو و لعب کوحلال نہیں کیا جاسکتا، وہاں ہر شے کو لہو و لعب قرار بھی نہیں دیا جاسکتا۔ اسلام کی تلوار کو وہاں چلانا چاہئے جہاں اسلام کو ضرورت ہو، تلوار لے کر چلنے والے کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ ذاتی پسند و ناپسند کو دین کا مسئلہ بنا دے۔“ محترم اداریہ نویس نے مندرجہ بالا سطور میں جو باتیں کی ہیں ، ان میں بہت سی اُصولی طور پر درست ہیں ، مگر بعض کے متعلق تبصرہ اور اعتراض کی گنجائش موجود ہے۔ مثلاً: (1) یہ ایک ناقابل انکار تاریخی حقیقت ہے کہ بسنت ہندوانہ تہوار رہاہے۔ راقم الحروف نے محدث کے انہی صفحا ت میں اپنے ایک مضمون ’بسنت، محض موسمی تہوارنہیں !‘ میں سکھ، ہندو اور انگریز موٴرخین کی آراء کو پیش کردیا ہے جنہیں دیکھ کر کوئی بھی حقیقت کا متلاشی اصلی بات کو سمجھ سکتا ہے۔ البیرونی کی رائے ہو یا فرہنگ ِآصفیہ میں اندراج، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بسنت بنیادی طور پر ہندوانہ تہوار ہے۔ راقم کا یہ مضمون ’محدث‘ (فروری ۲۰۰۱ء) کے علاوہ روزنامہ پاکستان میں بھی ۲۰۰۲ء کے بسنت کے موقع پر شائع ہوا۔ روزنامہ نوائے وقت نے ۹/ فروری ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں تاریخی حقائق کو مفصل طور پر شائع کرکے دکھا دیا کہ بسنت کا پس منظر ہندوانہ تہوار کا ہے۔ البتہ یہ معاملہ الگ ہے کہ کوئی بسنت مناتا ہے، مگر اسے ہندوانہ تہوار نہیں سمجھتا۔ (2) پتنگ بازی پر یہ اعتراض کسی نے وارد نہیں کیا کہ یہ کسی ہندو کی ایجاد ہے۔ اصل اعتراض یہ ہے کہ لاہور میں بسنت کے موقع پر پتنگ بازی کا آغاز گستاخِ رسول حقیقت رائے دھرمی کے میلے سے ہوا۔ تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے۔ سکھ اور ہندو موٴرخین کو بھی اس سے انکار نہیں ہے۔ یہاں روزنامہ نوائے وقت کی رپورٹ ’بسنت کیا ہے؟‘ کے متعلقہ حصہ کو نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے :