کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 49
پڑھنے کی زحمت وہ خود گوارا کرلیں :
”یہ ’پتنگ میلہ‘ جسے بسنت کا نام بھی دیا جاتا ہے اور ’جشن بہاراں ‘ کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے اب لاہور شہر کی تہذیبی شناخت بن چکا ہے … ایک طرف قوم کا بڑا حصہ بحیثیت ِمجموعی اس میلہ کو قومی تہوار بنا چکا ہے تو دوسری طرف اس پر تنقید بھی جاری ہے۔ روزنامہ پاکستان کے مارکیٹنگ کے شعبے کی طرف سے بھی اس بار اس ’میلے‘ میں پرزور شرکت کی گئی … ہمارے متعدد قارئین ہم سے بار بار پوچھ رہے ہیں کہ آپ کی رائے کیا ہے اور نظریہ کیا ہے؟ آپ تو اس ہنگامے میں شریک نظر آرہے ہیں ۔“ ہم نے ضروری جانا کہ اس موقع پر چند اُمور کی وضاحت کردی جائے اور اپنی رائے کو کھول کر اپنے قارئین کے سامنے رکھ دیا جائے…“
اداریے کے مندرجہ بالا حصہ پر ہم اختلافِ رائے کا حق استعمال کرتے ہوئے پہلے کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں اور اس کے بقیہ حصے کو بعد میں نقل کریں گے۔ ’پتنگ میلہ‘ کی ترکیب مروّج نہیں ہے۔ اسے بسنت کا نام دیا نہیں جاتا، یہ شروع ہی سے ’بسنت‘ ہی کہلاتا ہے۔ اسے لاہور شہر کی ’تہذیبی شناخت‘ کہنا بھی تاریخی حقائق کے منافی ہے۔ قابل اعتماد ماخذوں کے مطابق قیامِ پاکستان سے پہلے لاہور کے مسلمانوں کی ’بسنت‘ میں شرکت نہ ہونے کے برابر تھی۔ آج بھی اندرونِ شہر ہزاروں بزرگ موجود ہیں جو یہ بتاسکتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی چند نوجوان تھے جو منٹو پارک میں پتنگ بازی کا شغل کرتے تھے یا کچھ لوگ مزنگ میں یہ کام کرتے تھے مگر ان کی اس حرکت کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ یہ بات بھی درست نہیں کہ ”قوم کا بڑا حصہ بحیثیت ِمجموعی اس میلے کو قومی تہوار بنا چکا ہے۔“ لاہور شہر میں بسنت کے مخالف افراد لاکھوں میں ہیں ۔ ایک مقامی سطح کی تقریب کو ’قومی تہوار‘ نہیں کہا جاسکتا۔ بسنت جیسے متنازع فیہ لہوولعب پر مبنی پروگرام کو قومی تہوار کہنا مناسب نہیں ہے۔
روزنامہ پاکستان کے مذکورہ اداریے کے بقیہ حصے ملاحظہ فرمائیے :
(1)” بسنت یا جشن بہاراں یا پتنگ میلہ کے نام پر منایا جانے والا یہ تہوار کسی بھی طور کسی مذہب کے ساتھ وابستہ نہیں ہے۔ نہ یہ کرسمس ہے، نہ دیوالی اور نہ ہولی۔ یہ ایک غیر مذہبی تہوار ہے جسے طویل عرصہ سے منایا جارہا ہے۔
(2) پتنگ کسی ہندو کی ایجاد ہے نہ سکھ کی۔ اسے سینکڑوں سال سے مشرق کے آسمان پراڑایا جارہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسے اہل چین نے ایجاد کیا۔