کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 48
دانشور ہمارے ’قومی و ثقافتی تہوار‘ کا نام دیتے ہیں ، ان سے گذارش ہے کہ وہ اپنی اس رائے کو دینی حمیت اور قومی غیرت کے آئینے میں لمحہ بھر کے لئے ضرور دیکھیں ۔ دینی راہنماوٴں کو ’بے روح مذہبیت‘ اور ’قدامت پرستی‘ کا طعنہ دینے کی بجائے مناسب ہوگا کہ وہ بسنت کے دل دادہ ان شعرا کے اشعار پر غور فرمائیں ۔ کاش کہ وہ قوم کو اس ثقافتی لبرل ازم کے عذاب سے نجات دلانے میں فکری راہنمائی کا فریضہ انجام دیتے!! بسنت اور ہمارے دانشورصحافی روزنامہ نوائے وقت، بسنت مخالف تنظیموں ، سماجی راہنماوٴں اور دینی حلقوں کی طرف سے بسنت کو ہندوانہ تہوار قرار دے کر اس کے خلاف شدید احتجاج کیا جارہا تھا۔ اسی لئے بسنت کے حامی دانشوروں نے ان تقریبات کے لئے ’بسنت‘ کا نام استعمال کرنے سے گریز کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسے ’پتنگ میلہ‘ اور ’جشن بہاراں ‘ جیسے نام عطا کئے۔ اس طرح کا معذرت خواہانہ طرزِ عمل بالخصوص ایسے دانشوروں اور صحافیوں کی طرف سے سامنے آیا، جو ہمیشہ دائیں بازو میں شامل رہے ہیں ۔ ان کی جانب سے نیمے دروں نیمے بروں والا انداز اپنایا گیا۔ ان حضرات نے ’جشن بہاراں ‘ میں ’پرزور شرکت‘ بھی فرمائی اور اسے ’اخلاقی حدود کا پابند‘ رکھنے کی تلقین بھی فرماتے رہے۔ اسلامی اقدار کے فروغ کے لئے اپنے عزائم کا اظہار بھی فرماتے رہے اور ساتھ ہی بسنت کو ہندوانہ تہوار کہنے والوں کو ’بے روح مذہبیت‘ اور ’قدامت پرستی‘ کا شکار ہونے کے طعنے بھی دیتے رہے، علمائے کرام کو ’وسیع النظر ہونے‘ کی تلقین بھی فرماتے رہے، ساتھ ہی نوجوانوں کو سمجھاتے رہے کہ پاکستان کی بنیادی شناخت اس کے نظریہ کے حوالے سے ہے۔ اپنی سرپرستی میں ’دل ہوا بوکاٹا‘ جیسے گانوں پرنوجوانوں سے بھنگڑے بھی ڈلواتے رہے اور ساتھ ہی اپنے اخبار کے اداریے میں یہ تبلیغ بھی جاری رکھی: ”ہماری تقریبات بے خدا معاشروں کی تقریبات سے مختلف ہونی چاہئیں اور نظر بھی آنی چاہئیں ۔“ روزنامہ ’پاکستان‘ کے محترم مدیر صاحب کے فکری اضطراب کا عظیم نمونہ ان کا وہ اداریہ ہے جو ۱۹/فروری ۲۰۰۲ء کو ’پتنگ میلہ؛ بسنت یا جشن ِبہاراں‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس اداریے کے کچھ حصے ہم قارئین کی دلچسپی کے لئے نقل کردیتے ہیں ، باقی حصے اگر ہوسکے تو