کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 47
چھتوں پر عورتیں بسنتی لباس پہن کرنہ صرف سرسوں کی فصلیں لگاتی ہیں بلکہ باپ، بھائی اور غیر محرم مردوں کی موجودگی میں ’بوکاٹا‘ کے نعرے لگاتی ہیں ، پتنگ باز سجنا کے گیت گاتی ہیں ، اور ترنگ میں آکر بھنگڑا بھی ڈال لیتی ہیں ۔ بسنت کے موقع پر قریبی چھتوں پر لڑکے اور لڑکیوں کے غول در غول عشق و فسق کی آتش کو ہوا دینے میں بے حد ساز گار ماحول مہیا کرتے ہیں ۔ اس لبرل ماحول میں پتنگیں اُڑانے اور آنکھیں لڑانے کا شغل دونوں جاری رہتے ہیں ۔ ہمارے شاعروں نے بھی بے حد مزے لے کر اس عشق بازانہ پتنگ بازی کو موضوعِ سخن بنایا ہے۔ بعض شعرا کی شاعری کا بسنتی رنگ ملاحظہ کیجئے۔طارق کھوکھر نامی شاعر کی نظم کا عنوان ہے: ’چھت پر آنا اچھا لگتا ہے‘ ؛کہتے ہیں : صبح کو اس کا چھت پر آنا اچھا لگتا ہے دھاگے سے سب کچھ کہہ جانا اچھا لگتا ہے دن کو نہ تیرا چھت سے جانا اچھا لگتا ہے پتنگ کے سنگ خود لہرانا اچھا لگتا ہے شام کو تیرا چھت پر آنا اچھا لگتا ہے سب کچھ آنکھوں میں کہہ جانا اچھا لگتا ہے ایک دوسرے شاعر شاہد کریم انجم بسنت کے موقع پر چھتوں پر انجام دی جانے والی ’ثقافتی‘ سرگرمیوں کا حال یوں بیان کرتے ہیں : کتنی سج دھج سے آئی میرے شہر میں آج بسنت زندہ دل لوگوں کے دل پر کرتی ہے راج بسنت اک اک لمحہ گزر رہا ہے کتنا حسینوں پر ہر کوئی ڈورے ڈال رہا ہے چھت پر کھڑا حسینوں پر آنکھوں آنکھوں میں ہی لاکھوں یہاں پیچے لگتے ہیں نظروں کی قاتل ڈوری سے یہاں پر گڈے کٹتے ہیں پیلے رنگ کے طوفانوں میں سبھی ارمان مچلتے ہیں جس جانب بھی دیکھیں ، دل کے چور نکلتے ہیں ! باقر نقوی نام کے شاعر کا کلام دیکھئے: کیا مزہ ہے بسنت کی بہار میں سجنی کے دیدار میں ! دیر تک پتنگ اُڑائے رکھنا اس کے انتظار میں چھت پر نظریں جمائے رکھنا اس کے انتظار میں (’بسنت لاہور کا ثقافتی تہوار‘،نذیراحمد چوہدری، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور) اچھے اچھے شرفا اس لبرل کلچر کے سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہتے چلے جاتے ہیں ۔ اجتماعی پتنگ بازی کا بدترین پہلویہی ہے کہ اس کی وجہ سے اجتماعی آوارگی جنم لے رہی ہے مگر اس کا احساس نہیں کیا جارہا۔ اس فسق و فجور سے بھرپور ماحول میں منائی جانے والی بسنت کو جو